موجودہ حالات میں پاکستان دفاع کے علاوہ ہر میدان میں ناکام نظر آ رہا ہے جبکہ حکومت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کریڈٹ لیتی ہے، مسبب الاسباب کوئی نہ جانے کون تھا لیکن اس ملک کو شہباز شریف جیسا مفاہمت پسند لیڈر ملا۔ جہاں اپوزیشن کو بند گلی میں دھکیلا گیا، صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنا یا گیا، عدالتیں میں ترامیم کے ذریعے اختیارات چھین لیے گئے ، معیشت تباہی کے دھانے پر ہے،بیرون ملک دورے عروج پر رہے لیکن نتائج وہ حاصل نہ ہو سکے جن کی امیدیں لگائی جاتیں رہیں۔
وفاقی حکومت نے پہلے بیس ماہ میں شہباز حکومت نے موجودہ 20 ماہ میں 19 ہزار 369 ارب روپے قرض لیا، 11 ہزار 300 ارب روپے مقامی، 869 ارب روپے غیرملکی قرض۔ ملکی قرض 76 ہزار 979 ارب روپے ہو گیا، قرضوں کے انبار کے باوجود ملک میں سیاسی گہما گہمی ، معاشی و سیاسی بحران نئے ریکارڈ قائم کر چکا ہے، اوور سیز پاکستانی موجودہ حکومت سے فی الحال متنفر ہو چکے ہیں۔ ویسے تو ریکارڈ لفظ بہتر کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں سرمایہ کاری میں زوال کا نیا ریکارڈ قائم ہونے کا خدشہ ہے جو ہمیں نہیں پتہ چلا کہ کس کا ویژن ہے مگر غریب ، نادار، لاچار اور مظلوم عوام کے سامنے شہباز شریف کا چہرہ آتا ہے۔ ایک سال میں پاکستانیوں نےدبئی میں 10دس ارب ڈالر کی جائیدادیں خریدیں،لیکن اپنے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے لہذا سرمایہ کاری کےلئے رول آف لاءبہت اہمیت رکھتا ہے۔
رواں مالی سال مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاری میں گراوٹ کا ایک ناخوشگوار ریکارڈ قائم ہوسکتا ہے۔ انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 13فیصد سے بھی نیچے گر سکتی ہے۔ سال 2023 میں انوسٹمنٹ پالیسی کا اعلان کرکے انوسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 20 فیصدتک لیجانے کا ہدف طے کیا گیا تھا۔ غیر سرمایہ کاری لانے کیلئے SIFC بھی قائم کی گئی جو ابتک ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تجارت اور صنعت سے وابستہ افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی غیریقینیت اور دہشت گردی پر قابو پا کر سرمایہ کاری کے ماحول کر بہتر کیا جائے۔
بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش فی کس آمدنی کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کو سب سے پیچھے دیکھنا پڑتا ہے جس کا کریڈٹ لینے کیلئے عسکری اور نہ ہی مقننہ سامنے آتی ہے جبکہ سیاسی لیڈرز اور پارلیمان تو تسلیم کرتا ہے کہ ہم پر دباؤ ہے جس کی وجہ سے ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔1990 میں پاکستان کی فی کس آمدنی بنگلہ دیش کے مقابلے میں دوگنی اور بھارت کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ تھی۔ 2024 میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی پاکستان سے 53 فیصد زیادہ ہے، جبکہ بھارت کی فی کس آمدنی پاکستان سے 71 فیصد زیادہ ہو چکی ہے۔ آپ خود سوچیے کہ کیا کمبوڈیا اور برما بھی پاکستان سے بہتر؟ پاکستان میں معاشی حالات کا یہ عالم ہے کہ اس سال 24 ہزار پاکستانی کمبوڈیا گئے، 12 ہزار واپس نہیں آئے۔ 4 ہزار پاکستانی برما گئے، ڈھائی ہزار واپس نہیں آئے۔
دسمبر کے دوسرے ہفتے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی دوسری جائزہ رپورٹ آئی ہے، 54 شرائط پر قرضہ دیا تھا، اب 11 مزید شرائط لگائی ہیں، چینی کے استعمال والی اشیاء پر ایف ای ڈی لگایا جائے گا۔مشیرِ خزانہ مزمل اسلم نے بتایا کہ عوام پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی 80 فیصد دے رہے ہیں، اس میں بھی 5 فیصد اضافہ ہونے جا رہا ہے، حکومت کو ٹیکس پالیسی اور گورننس پر بات کرنی چاہیے جبکہ پی بی ایس کی آفیشل رپورٹ کیمطابق رجیم چینج سے ایک ہفتہ پہلے اخبار کی ہیڈ لائنز کے مطابق پی ٹی آئی نے وزیرِ اعظم عمران خان کی سربراہی میں پہلے تین سالوں 55 لاکھ نوکریاں پیدا کی اِس دوران پوری دنیا میں کورونا وبا بھی پھیل چکی تھی جبکہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ پچھلے تین سالوں میں 14 لاکھ بیروزگار ہوئے
نا چیز دو دن قبل سوال سے آگے پروگرام سماعت کر رہا تھا جس میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفظ پاشا مہمان تھے، وہ بتا رہے تھے کہ ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان 190 ممالک میں 168 نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان اور بنگلہ دیش 135 کے قریب ہیں اور ان کی رینکنگ بہتر ہوتی جا رہی ہے۔1990 تک ہماری کارکردگی بہتر رہی، ہماری فی کس آمدنی ہندوستان سے بہتر تھی لیکن آج ہندوستان سے 40 فیصد کم ہوچکی ہے، یہ حقائق سننے کے بعد مجھے اپنے اور بچوں کے مستقبل کے ساتھ حال کی بھی فکر ہونے لگی کہ اگر یہی صورتحال رہی تو شہباز شریف کا ویژن تو تباہ ہو ہی جائے گا مگر نواز شریف کی بنائی گئی ن لیگ کا ویژن بھی تباہ ہو جائے گا۔17 دسمبر 2025 کو چئیرمین آل پاکستان ٹیسکٹائل ملز ایسوسی ایشن نے بتایا کہ ملک بھر میں 144 ٹیکسٹائل ملز بند ہو گئیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ویژن کے ساتھ اگر ٹیسکٹائل بند ہو رہی ہیں تو پھر اسی ویژن کے ساتھ ان کو بھی تباہی کی جانب جان ہو گا جو اس ویژن کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔
پاکستان سے رواں سال 85 لاکھ افراد بیرون ملک گئے۔آج پاکستان کا عالمی کرپشن انڈیکس میں 135، نائیجیریا کا 140 نمبر ہے، کرپشن کے ساتھ ملک کو چلانا جمہوریت کے ساتھ چلانے سے ان تمام کیلئے زیادہ آسان ہو چکا ہے۔ہر محکمہ عوام کیلئے دھما کہ ثابت ہو رہا ہے، کبھی لوگوں کو کاروبار تباہ کیا جاتا تو کبھی پولیس کو با اختیار بنانے کی بجائے بے اختیار بنا دیا جاتا ہے جہاں بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، کبھی چالان کے نام پر تو کبھی ٹریفک قوانین کے ذریعے، کبھی انکروچمنٹ تو کبھی کرائم کنٹرول، کبھی انصاف کا نعر ہ تو کہیں عورت کو با اختیار بنانے کا دعوی، یہ کام سب نے شروع تو کیے لیکن ان کو مکمل کرنے سے سب عاری رہے جس کی وجہ سے غربت کے ساتھ جرم، ظلم اور زیادتیاں معاشرے کا حصہ بنتی رہیں، پنجاب حکومت کے کچھ اقدام قابلِ تعریف ہیں جو ملک میں بہتری کا آغاز کر رہے ہیں۔
ن لیگ مارچ 2022 سے حکومت میں ہے ، احسن اقبال صاحب نے کل ایک بیان دیا کہ حکومت کو مزید 15 سال دیے جائیں ترقی کے لیے پھر ملک کا کچھ ہو سکتا ہے، پرسوں شاہزیب خانزادہ کو بتا رہے تھے کہ ہم ایکسپورٹ کی صلاحیت کو نہیں بڑھا پا رہے، سوال یہ ہے کہ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو ملک کو آگے کون لیکر جائے گا؟ جب عمران خان کے دور میں عالمی مارکیٹ میں تیل $100 تھا اس وقت پٹرول کی قیمت 150 روپے فی لیٹر تھی آج عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت $60 ڈالر سے کم مگر پٹرول کی قیمت 265 روپے فی لیٹر ہے۔ اب سوال کریں گے کہ اس وقت ڈالر کا ریٹ کیا تھا اور آج؟ جواب بھی لے لیں ڈالر کا ریٹ عمران خان نے تو نہیں بھڑایا؟ دوسرا اس وقت پیٹرولیم لیوی 20 روپے تھا اور آج 80 روپے فی لیٹر ہے۔ کیا پھر ہم یہ کہیں کہ پرانے پاکستان کے بعد نئے پاکستان کا نعرہ برُا تھا مگر ا تنا بڑا نہیں تھا جتنا آج تمام سیاسی جماعتوں نے مقتدر حلقوں کی مدد سے تحریک عدم اعتماد کے بعد ہمیں پرانا پاکستان واپس دے کر عوام کے ساتھ بُرا کیا۔لہذا ہماری خواہش ہے کہ یہ ویژن ہمارا نہ رہے بلکہ سر ! آپ کا ویژن آپ کو مبارک ہو۔
نوٹ:لکھاری علی رضا گورنمٹ کالج ( جی سی یونیورسٹی ) لاہور کے اسکالر ہیں جو مختلف اخبارات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آپ مختلف بڑے نجی چینلز کے ساتھ کام کرچکے ہیں جو بین الاقوامی اور تایخی موضوعات پر خاصی مہارت رکھتے ہیں








