انبیاء کی سر زمین فلسطین کو یہودی ریاست میں تبدیل کرنا مشرق وسطیٰ کے بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ یہودیوں کے ان ناپاک عزاٸم کی ابتداء 1857ء میں تھیوڈر ہرزل کی تحریک پر پہلی صہیونی کانگرس میں ہوٸی۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہاں کے مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں۔ یہ مشرق میں یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل قابض ہے۔ میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجاٸش کے ساتھ یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرۃ ہے جواسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے۔ تاہم آج کل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔ یروشلم/بیت المقدس میں مسجد اقصی کے قریب موجود ایک تاریخی چٹان کے اوپر سنہری گنبد کا نام ہے۔ الصخرۃ (Dome of the Rock) کہا جاتا ہے۔ یہ اونچی عمارت پچھلی تیرہ صدیوں سے دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں ميں شمار ہو رہی ہے۔ اور حرم قدسی کا ایک حصہ کہلاتی ہے۔ یہاں کے رہنے والے (مسیحی اور یہودی) اسے (Dome of the Rock) کہتے ہیں۔ عربی زبان میں قبۃ کا مطلب گنبد اور الصخرۃ کا مطلب چٹان ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کے سفر کے دوران مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ پہنچے تھے اور یہاں تمام انبیا کی نماز کی امامت کروائی۔

قرآن مجید کی سورہ بنی الاسرائیل میں اس کا ذکر اللہ پاک نے ان الفاظ میں فرمایا :

” پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالٰی ہی خوب سننے اوردیکھنے والا ہے (سورہ الاسرائیل آیت نمبر 1)ایک حدیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں ، کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے۔

حضرت عمر فاروق کے دور میں جب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا اور یہاں انہوں نے اپنے ہم راہیوں سمیت نماز ادا کی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ( بنی اسرائیل) کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔

اس کا رقبہ 144000 مربع میٹر ہے۔احاطہ اقصیٰ کے چودہ دروازے ہیں۔ تاہم صلاح الدین ایوبی نے جب اس مسجد کو آزاد کروایا تو اس کے چاروں دروازوں کو بعض وجوہات کی بنا پر بند کروادیا, یایوں موجودہ دروازوں کی تعداد دس ہے۔

ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان اگست 1969ء کو قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرق کی جانب سے عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔اسی دوران محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور دوران جنگ وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں۔
چونکہ یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اس عبادت گاہ کو گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں جب کے وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل یہ ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔
عالم اسلام کی تاریخ کی ورق گردانی مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت اور اس کی بنیاد کے مکمل ، ٹھوس اور واضح ثبوت رکھتی ہے۔

گزشتہ 73 برس اسرائیل وقتاً بوقتاً فلسطینیوں پر حملے کرتا آ رہا ہے، جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی 2021 کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے.رواں برس فلسطین تنازعے کے طور صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے لیے اہم مہینے رمضان المبارک میں مقدس ترین رات ليلۃ القدر کے موقع پر فلسطینیوں پر مظالم اور حملوں کا آغاز کیا۔ عالمی ادارہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطین کی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل – فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جبکہ پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اس پر اعتراض رہتا ہے۔

حال ہی میں ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو چکی ہے۔ اور ان بے ضمیر اسرائیلی افواج نے بربریت کی انتہا کر کے بالخصوص مسلمان فلسطینی بچوں کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف اقدام اٹھاۓ ہیں۔علاوہ ازیں غزہ شہر بمباری کے نتیجے میں بری طرح تباہ ہوا ہے۔
اسی طرح اسرائیلی دہشت گردی مہذب دنیا اور اقوام عالم کی متحدہ قیام امن کی کاوشوں پر سیاہ دھبہ کی مانند ہے۔
اسرائیلی ظلم و تعدی کے مقابلے اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کی خاطر مسلمانوں کو مالی، جانی، اخلاقی اور سیاسی طور پر فلسطینی عوام کا ساتھ دینا ہو گا۔

Shares: