کل کا مدعی آج کا ملزم،سیاست کب جمہوریت میں بدلے گی؟
اقتدار میں آیا تو مخالفین پر مقدمات،اپوزیشن میں انصاف،انصاف کی رٹ
سیاسی جماعتیں کب’’ باشعور‘‘ ہوجائیں گی،روئیے تبدیل ہوں ملکی تقدیر بدل جائیگی
عوام کے حصے میں 78 سالوں کے دوران صرف،مہنگائی،بےروزگاری اور لاقانونیت ہی آئی
تجزیہ، شہزاد قریشی
وطن عزیز میں جمہوریت مستحکم کیوں نہ ہوئی ، اسباب کیا ہیں؟ بلاشبہ وطن عزیز جمہوریت اور آمریت کے درمیان جھولتا رہا لیکن سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے کوئی کردار ادا کیا ؟یہ سوال مجھ سمیت ہر ذی شعور پاکستانی پوچھنے میں حق بجانب ہے ،لیکن وطن عزیز کی سیاست میں انتقامی رویہ ایک مستقل روایت بن چکا ہے، اقتدار سے باہر جماعتیں احتساب کے نام پر انصاف مانگتی ہیں، جیسے ہی خود اقتدار میں آتی ہیں تو انصاف کے بجائے انتقام کو ترجیح دیتی ہیں، جس کا نقصان جمہوریت ملک و قوم کو ہوتا ہے اور انتقامی سیاست کے اثرات ریاستی اداروں پر بھی پڑتے ہیں، ادارے غیر جانبدار نہیں رہ پاتے ،انہیں مخصوص جماعتوں یا قیادت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، جس سے ان کی ساکھ مجروح ہوتی ہے، عوام کو ریلیف ،ترقی یا سہولت دینے کے بجائے ساری توانائی سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنانے اور گرفتاریاں کرنے پر صرف ہوتی ہے، اس دوران مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی جیسے مسائل بڑھتے رہتے ہیں،جمہوری عمل کا مقصد اقتدار کی پرامن منتقلی اور عوام کی حکمرانی ہے، لیکن جب ہر حکومت پچھلی حکومت کو غدار چور یا دشمن بنا کر پیش کرتی ہے تو وطن عزیز کی جمہوریت ایک انتقامی کھیل لگنے لگتی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے، وطن عزیز میں سیاست کو خدمت نہیں بلکہ اقتدار کی جنگ سمجھا جاتا ہے، جب تک سیاستدان خود یہ طے نہیں کرتے کہ ہم سیاسی مخالف ہیں دشمن نہیں، تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، مضبوط عدلیہ آزاد میڈیا اور عوامی دباؤ ہی اس روایت کو بدل سکتے ہیں، وطن عزیز میں جمہوریت انتقام کی نہیں بلکہ برداشت مکالمے اور عوامی خدمت کی بنیاد پر ہونی چاہیے، وطن عزیز کی تاریخ میں کئی واضح مثالیں موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اقتدار کے بعد اکثر جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ انتقامی رویہ اپناتی رہیں، بھٹو کے اقتدار کے دوران بعض اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا،ولی خان مرحوم اور دیگر رہنماؤں کو غداری کے مقدمات میں گھسیٹا گیا، جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا۔ پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنان کو جیلوں اور کوڑوں کی سزا دی یہ بھی ایک طرح کی ریاستی انتقامی سیاست تھی،نواز شریف کے پہلے دور میں بینظیر بھٹو کی حکومت کو بد عنوان اور غدار ثابت کرنے کی مہم چلائی گئی، بینظیر کے دوسرے دور میں نواز شریف پر کرپشن منی لانڈرنگ کے کیسسز بنائے گئے، 1999 ءمیں خود نواز شریف کو جلا وطنی اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، تحریک انصاف کے دور میں اپوزیشن لیڈروں نواز شریف شہباز شریف آصف زرداری کو جیلوں میں ڈالا گیا، پاکستان کی سیاسی تاریخ احتساب کے نام پر انتقام سے بھری ہوئی ہے، جب تک سیاسی جماعتیں مکالمہ رواداری اور جمہوری اقتدار کو فوقیت نہیں دیتی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا، پاکستان کی سیاست کا تسلسل کچھ یوں رہا اقتدار میں مخالفین پر مقدمات، اقتدار سے باہر ہوتے ہی خود مقدمات کا سامنا یعنی کل کا مدعی آج کا ملزم بن جاتا ہے، اس تاریخی تسلسل سے صاف لگتا ہے جب تک ادارے ازاد اور غیر جانبدار نہیں ہوں گے اور سیاستدان ایک دوسرے کو دشمن کے بجائے سیاسی مخالف ماننا نہیں سیکھیں گے یہ سلسلہ چلتا رہے گا، یاد رکھیے وطن عزیز اور قوم مقدم ہے، اداروں کو بقاء اور شخصیات کو فنا حاصل ہے-