امریکہ سے لے کر یورپ اور یورپ سے لے کر سعودی عرب، امارات، قطر اور کویت اپنی قوم اور اپنے ممالک کے لئےمستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلی کے میدان میں اتر چکے ہیں سعودی عرب کا انحصار مستقبل میں صرف پٹرول اور ڈیزل پر نہیں ہوگا جبکہ روس اور یوکرائن کی جنگ کو لے کر یورپ مستقبل میں گیس اور پٹرول ڈیزل پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ممالک کے شاندار مستقبل کے لئے بجلی پر انحصار کر کے گا۔
اس سلسلے میں گھروں میں گیس کی جگہ الیکٹرانک سسٹم جبکہ گاڑیاں بھی الیکٹرانک سسٹم پر سڑکوں پر لانے کے لئے عملی طور پر کام شروع کردیا گیا ہے سعودی عرب کا وژن 2030 اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ سعودی عرب اپنے مستقبل کے لئے چین سمیت اٹلی اور دیگر یورپی ممالک سے صرف سیاسی رابطوں تک محدود نہیں بلکہ تعلیم و تربیت، تجارت اور دیگر شعبوں میں مذاکرات کر رہا ہے۔
سعودی عرب جس کی ستر فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر کی ہے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ نتیجہ خیز تعاون کے ذریعے استحکام اور پائیدار اقتصادی ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے پرعزم ہے سعودی عرب کے مستقبل کے لئے ترقی کے خواب کا بلاشبہ سہرا پرنس محمد بن سلیمان کو جاتا ہے۔ کاش ہمارے ریاستی ذمہ داران اور سیاستدان وطن عزیز کی ترقی اور پڑھے لکھے جوانوں اور آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔
سیاستدان ایک دوسرے کی آڈیو، ویڈیو پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ایک دوسرے کو غدار، کرپٹ، سیکورٹی رسک ثابت کرنے، حد یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ معاشرے کے نوجوان بچوں اور بچیوں کے مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے ایک دوسرے کی عورتوں کی آڈیو ، ویڈیو سوشل میڈیا پر دکھائی جا رہی ہے کیا یہ وطن عزیز اور عوام کا مقدر سنوار رہے ہیں؟ انتظامی افسران کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ ہر آنے والی حکومت کی غلامی اختیار کر لیتے ہیں یہی حال بیورو کریسی کا ہے۔
یہی حال اعلیٰ پولیس افسران کا ہے۔ اقتدار اور ہوس اقتدار میں وطن عزیز اور نوجوان نسل کے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں۔ دنیا اپنے اپنے مستقبل کے لئے اپنی عوام کے لئے منصوبے بنا رہی ہے ہم ایک دوسرے کیخلاف مقدمات درج کروانے کی دوڑ میں لگے ہیں۔
حکمرانوں، تمام سیاسی جماعتوں، فیصلہ ساز اداروں کو بھی چاہئے کہ آپس کی سیاسی کھینچا تانی اور رسہ کشی کو ترک کر کے وطن عزیز میں سیاسی ہم آہنگی، کفایت شعاری، گڈگورننس پر توجہ دیں اور قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ ختم کیا جائے۔ لانگ ٹرم پالیسیاں بنائی جائیں جس سے عوام کو رہنمائی اور وطن عزیز کو استحکام کی امید لگے۔
(تجزیہ شہزاد قریشی)