سقوطِ ڈھاکہ کا اصل مجرم بنگالیوں نے پہچان لیا۔۔۔!

سقوطِ ڈھاکہ کا اصل مجرم بنگالیوں نے پہچان لیا۔۔۔!
تحریر: قاضی کاشف نیاز
آہ! دسمبر ایک بار پھر آ گیا۔ ہر سال یہ مہینہ ہماری تاریخ کی تلخ ترین یادوں کو تازہ کرنے آتا ہے، لیکن الحمدللہ اس بار تلخیاں شیرینی میں حل ہو کر پہلے سے کہیں کم محسوس ہو رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ اب شام سے بھی خوشی کی خبریں آ رہی ہیں۔ وہ قوتیں جنہوں نے ہمارے بنگالی مسلم بھائیوں کو ہم سے لڑا کر الگ کر دیا تھا اس بار ان کی سازشوں کا جال بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے اور دنیا ایک بار پھر بدلنے کو تیار ہے۔

وہی بنگالی جنہیں بھارت نے زہریلا پروپیگنڈا کرکے مغربی پاکستان کی عوام اور فوج کے خلاف کھڑا کیا تھا اور پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوا تھا، آج اس بڑے شیطان (بھارت) کو پہچان چکے ہیں۔ وہ گرزِ ابراہیمی لے کر بھارت کے بڑے آلہ کار اور بنگلہ دیش کے نام نہاد بانی کے بت کو پاش پاش کر چکے ہیں۔ بنگالی بھائیوں نے اپنی واپسی اور "مراجعت الی الحق و الباکستان” کا سفر حیرت انگیز طور پر بڑی تیزی سے شروع کر دیا ہے۔ ہمیں بھی ان کے اس جذبے کا جواب اسی گرمجوشی سے دینا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی پاکستان کے سانحے میں ہم سے بھی کئی غلطیاں ہوئیں لیکن بنگالی بھائیوں نے اپنے تازہ رویے سے ثابت کر دیا ہے کہ اس سارے معاملے میں اصل قصوروار بھارت تھا، جس نے پاکستان کے وجود کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ اس تاک میں رہا کہ کسی طرح دو بھائیوں کے باہمی جھگڑوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو نقصان پہنچائے۔

آج بنگالی عوام نے اپنے ملک میں انقلاب لا کر ثابت کر دیا ہے کہ ان کا اصل دشمن پاکستان نہیں بلکہ بھارت اور اس کے آلہ کار ہیں۔ وہ بھارت جس نے بنگالی عوام کو اپنے سازشی جال میں پھنسا کر پاکستان کے خلاف کھڑا کیا، آج خود بنگالی عوام کی نظروں میں ایک ناپسندیدہ ملک بن چکا ہے۔

بنگالی عوام نے اپنی تازہ تحریک سے بھارت کے تمام عزائم خاک میں ملا دیے ہیں۔ وہ عوام جو پہلے بھارت کے پروپیگنڈے کے زیر اثر تھے، آج لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ شیخ مجیب اور اس کی بیٹی حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن بنگالی عوام نے اس کے خلاف بغاوت کر دی۔ حسینہ واجد کے خلاف یہ تحریک نہ صرف ایک سیاسی انقلاب ہے بلکہ ایک خالص نظریاتی انقلاب بھی ہے۔ یہ انقلاب اس نظریے کی تجدید ہے جسے پاکستان کے قیام کے وقت دو قومی نظریہ کہا گیا تھا۔

آج بنگالی عوام بھارت کو دشمن اور پاکستان کو دوست سمجھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ڈھاکہ میں قائداعظم محمد علی جناح کی برسی اور علامہ اقبال کے یومِ پیدائش کی تقریبات کا انعقاد اسی نظریاتی تبدیلی کا ثبوت ہیں۔

ہمیں بھی چاہیے کہ ان بچھڑے بھائیوں کو دوبارہ گلے لگانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔

Comments are closed.