سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہو گا
تحریر: مبشر حسن شاہ
تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے وزارت صحت حکومت پاکستان۔ یہ الفاظ پی ٹی وی کی نشریات کے دوران ان گنت مرتبہ سنے، بچپن سے نوجوانی، پھر جوانی اور پھر اب گزرتے دن، تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔
پاکستان میں سالانہ 81 ارب روپے کے سگریٹ خریدے جاتے ہیں۔ اس رقم کا 7 فیصد سمگل شدہ یا امپورٹڈ سگریٹ ہے۔ آبادی کا 20 فیصد تمباکو نوشی کا عادی ہے۔ حالیہ مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 26 کروڑ تھی جس کا 20 فیصد ہے 5 کروڑ 20 لاکھ۔ اور خریداری 81 ارب کی۔ فی کس 1557 روپے۔ یہ رقم اتنی بڑی نہیں کہ اس کو کوئی بھی شخص جو پاکستان میں رہتا ہو اس کی جیب پر بوجھ ہو۔ سگریٹ پر ہر بجٹ سے پہلے ٹیکس لگائے جانے کا شور بپا ہوتا ہے اور ہر سال سگریٹ کچھ مہنگا بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ مہنگائی یا قیمت میں اضافہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے یہاں سگریٹ کی ڈبیا کی قیمت 550 روپے سے 50 روپے تک ہے۔ ٹوبیکو کنٹرول سیل کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر اجمل شاہ کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً پانچ ہزار افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی یومیہ اموات کی تعداد 274 سے بڑھ کر 460 کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ان تمام اعداد و شمار سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ سگریٹ کو عام آدمی اور غریب کی پہنچ سے دور کرنا ہے تو اس کا واحد حل بھاری شرح سے ٹیکس کا نفاذ ہے۔
معیشت کے مروجہ قاعدے بھی اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔ معاشیات کی رو سے انسان ہمیشہ اپنی امدن اور اشیاء کی قیمت کو مدنظر رکھ کر خریداری کرتا ہے اور اپنی امدن اور بازار میں موجود مصنوعات کی قیمت کا موازنہ کرکے اپنی ترجیحات مقرر کرتا ہے، اسے معاشی انتخاب کہتے ہیں۔ ٹیکس کا نفاذ جب سگریٹ کی قیمتوں میں واضح اضافہ کرے گا تو عام آدمی کی پہنچ سے یہ باہر ہوگا اور تمباکو نوشی کے خاتمے کی طرف یہ پہلا اور مؤثر قدم ہوگا کیونکہ سگریٹ کی طلب پر معاشی انتخاب بہرحال قیمت کی زیادتی سے تبدیل ہونا لازم و ملزوم ہے۔
ہمارے ہاں تمباکو نوشی کی عادت اکثر کم عمری یا نوجوانی میں دوستوں کے ساتھ چھپ کر پینے یا بطور ایڈونچر پینے سے شروع ہوتی ہے جو فوراً جسم کی ضرورت بن جاتی ہے۔ نکوٹین کی کمی پر جسم کی طلب اور قوت ارادی کی کمزوری ہمیں فوراً عادی تمباکو نوش بنا دیتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سٹائلش لگنا اور فلموں، ڈراموں، افسانوں کے کرداروں سے متاثر ہونا ہے جن کی سگریٹ نوشی کو ہمیشہ گلوریفائی کیا جاتا ہے۔
غریب آدمی کے پاس تفریح یا ذہنی سکون کے مواقع تقریباً صفر ہیں لیکن سگریٹ نوشی سے جڑی ذہنی سکون کی الف لیلا نے اسے غریب آدمی کے لیے سستا ترین سکون بنا دیا ہے۔ نکوٹین سے ذہنی سکون نہیں ملتا، اصل میں یہ دماغی ہارمون ڈوپامین کی ریلیز سے حاصل ہونے والی خوشی کا احساس ہے جو سگریٹ پینے والے پر نفسیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جبکہ بدلے میں پھیپھڑوں، دل، منہ، زبان اور جسم کے دیگر اندرونی اعضاء کو بدترین نقصان پہنچتا ہے۔
اشتہارات، میڈیا، عوامی مقامات پر لوگ، عام آدمی کی رائے اور سگریٹ کی عام دستیابی نے اس کی روک تھام کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ صرف ٹیکس ریٹ میں اضافہ اس کی لت سے نجات کا وہ واحد حل ہے جو قابل عمل تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ کم وقت میں بہترین نتائج کا ضامن بھی۔ سمگل شدہ سگریٹ کم قیمت پر مل جاتے ہیں لیکن ان کی روک تھام کے لیے حکومتی رویہ سخت ہے لہٰذا سگریٹ کو ہیوی ٹیکس نیٹ میں لانے کے بعد سمگل شدہ سگریٹ کا معاملہ حل کیا جا سکتا ہے۔
پہلے ہمارے یہاں پان، حقہ اور سگریٹ تمباکو نوشی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اب شیشہ، ویپ، الیکٹرانک سگریٹ اور فلٹر پاوچ بھی عام دستیاب ہیں جبکہ نسوار کا رواج بھی عام ہے۔ اگر صرف سگریٹ کو بھاری ٹیکس کی مد میں نشانہ بنایا گیا تو متبادل اشیاء کی فروخت میں اضافہ ہوگا اور تمباکو نوش جو معاشی بوجھ کی وجہ سے ترک سگریٹ پر آمادہ ہوں گے، متبادل ذرائع سے نکوٹین لینے لگیں گے۔ جبکہ کسی بھی شکل میں تمباکو کا استعمال نقصان دہ ہے، لہٰذا ان تمام درج بالا اشیاء کو ٹیکس نیٹ سے ٹارگٹ کرنا ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی چھوڑنے والوں کی حوصلہ افزائی بذریعہ تشہیر اور ایسے تمام ادارے جو اس مہم کا حصہ ہیں، ان کی سرپرستی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں ٹیکس اہداف اکثر حاصل نہیں ہو پاتے جبکہ دوسری طرف تمباکو نوشی سے روکنے کے لیے ٹیکس بڑھانے میں نہ صرف بہتر ریونیو حاصل ہوگا بلکہ عام آدمی کے لیے بھی معاشی بوجھ میں کمی ہوگی کیونکہ قوت خرید متاثر ہوتے ہی سگریٹ نوشی کے عادی جب اس کا استعمال ترک یا کم کریں گے تو ان کے پاس کچھ نہ کچھ رقم کی بچت کا موقع ہوگا۔