پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ، ملک کو سالانہ ایک ارب ڈالر کا نقصان
اسلام آباد(باغی ٹی وی رپورٹ) ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ نے قومی خزانے کو شدید دھچکا لگا ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات غیر قانونی طور پر ملک میں داخل کی جا رہی ہیں۔ یہ مصنوعات زمینی اور سمندری راستوں سے ملک میں لائی جا رہی ہیں اور ملک کی کل کھپت کا تقریباً 20 فیصد حصہ بنتی ہیں۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) نے اس مسئلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک کی تیل کی صنعت کو سنگین خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے حکومت کو ہونے والی محصول کی کمی سے ملکی معاملات چلانے میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
او سی اے سی کے مطابق حکومت نے کچھ عرصہ قبل اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا جس سے اس میں کمی واقع ہوئی تھی۔ لیکن بدقسمتی سےحالیہ مہینوں میں اسمگلنگ میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو اس سے ملک کی تیل کی سپلائی چین بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں ریفائننگ شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے انٹیلی جینس حکام نے ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کا کھوج لگانے کا دعویٰ کیا ہے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ 227 ارب روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔
اس رپورٹ پر وفاقی حکومت نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے بعد ایران سے پیٹرول کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والے ان انکشافات میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے بلوچستان میں 738 پیٹرول فلنگ اسٹیشنز، اسمگلروں اور اہلکاروں پر مشتمل ایک گروہ کو بے نقاب کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صوبے میں تقریباً 100 کرپٹ افسران اور 105 ایرانی تیل کے اسمگلروں کی نشان دہی کی گئی ہے اور ان کے نام اور نمبرز بھی حکام کو فراہم کیے گئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق حالیہ عرصے میں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ دگنی ہو گئی ہے۔اس سے قبل نگراں حکومت کی جانب سے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کے باعث یہ کاروبار نصف ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ایرانی پیڑولیم کی مرکزی منڈی میں ایک ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماضی کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے دور میں ایرانی پیٹرول کی سپلائی میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈیلر کے مطابق ایرانی پیٹرول کی ترسیل میں اضافے کی وجہ سندھ اور پنجاب کو سپلائی میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔
خفیہ اداروں کی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سے ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔
ایرانی پیٹرول لانے والے ایک ڈرائیور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ تربت سے ایرانی پیٹرول کوئٹہ لاتے ہیں راستے میں ایک درجن سے زائد چیک پوسٹوں پر انہیں روکا جاتا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان چیک پوسٹوں پر بڑی گاڑیوں سے فی گاڑی پانچ ہزار جب کہ چھوٹی گاڑیوں سے فی گاڑی دو ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ڈرائیور کے مطابق تربت سے کوئٹہ تک سفر میں عام طور پر آٹھ سے 10 گھنٹے لگتے ہیں مگر انہیں ہر چیک پوسٹ پر گھنٹوں روکا جاتا ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ پہنچنے تک دو سے تین دن لگ جاتے ہیں۔
ڈرائیور کا کہنا ہے کہ اس کاروبار میں جتنی بچت ہوتی ہے اس کا بڑا حصہ چیک پوسٹوں پر ہم سے لے لیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں ایرانی پیٹرول کے کاروبار سے وابستہ تنظیم "زمباد ایسوسی ایشن” کے ایک عہدے دار جان بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی پیٹرول کی ترسیل اسمگلنگ میں نہیں آتی ہے اگر یہ اسمگلنگ ہوتی تو ایف سی اور ضلعی انتظامیہ ہماری گاڑیوں کو کس حیثیت میں رجسٹرڈ کرتی ہے۔
داد جان نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ حکومت نے ہماری پانچ ہزار تیل بردار گاڑیوں اور گوادر میں 10 ہزار کشتیوں کو رجسٹرڈ کر رکھا ہے۔ان کے مطابق پاکستان ایران سرحد پر بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر روزانہ 600 گاڑیوں کو تیل لانے کی اجازت دی جاتی ہے