کوئٹہ:چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی ترمیم سے متعلق میں موجودہ چیف جسٹس کے لیے جدوجہد نہیں کررہا،
باغی ٹی وی : کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ بارسے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ 1973کے آئین کو مثیاق جمہوریت کے ذریعے بحال کیا، آمر کےکالے قانون کو کسی جج میں ہمت نہیں تھی کہ وہ غیرآئینی کہے مگر سیاسی لوگ اس وقت ظلم بھگت رہے تھے، میرے والد نےکسی سزا کے بغیر قید بھگتی، اس وقت بھی یہی عدالت کا نظام تھا،کہاں مکمل انصاف تھا۔
انہوں نے کہا کہ وکلا سےایسا لگاؤ ہے جو کوئی سیاستدان یا ادارہ کلیم نہیں کرسکتا، دہشت گردی واقعے کےبعد بلوچستان آیا بڑےوکلا سےملاقات ہوئی، جو آج کل وکلا کےچیمپئن بنے ہوئے ہیں اسوقت مذاق اڑیا تھا، میں آپ میں سے ہوں لاہور یا اسلام آباد سے نہیں آیاسابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، اُس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل کیانی، اُس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا کے درمیان مک مکا ہوا کہ اگر چارٹر آف ڈیموکریسی لاگو ہو گا، اگر ہم 1973 کے آئین کو اصل صورت میں بحال کریں گے تو اسٹیٹس کو کا کیا ہوگا، ہمارا ڈیموکریسی کا کنٹرول کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کسی وزیراعظم کو نکالیں اور ہم چوں تک نہ کرسکیں، کہا گیا ریاست ہوگی ماں کی جیسی مگر پھر ریاست باپ کی طرح ہوگئی اور اس میں زیادہ ہاتھ افتخار چوہدری کا تھا جن کے وقت میں فل بینچ رات 12 بجے بیٹھ جاتا تھا۔آئینی ترمیم سے متعلق میں موجودہ چیف جسٹس کے لیے جدوجہد نہیں کررہا، میرا نہیں آپ کا ایجنڈا کسی خاص شخصیت کے لیے ہوسکتا ہے، ملک سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منصور علی شاہ میرے لیے سب سے محترم ہیں، پہلی بار جسٹس فائزعیسیٰ اور جسٹس منصور کے زمانے میں امید نظر آرہی ہے، مجھے کوئی مسئلہ نہیں ان دو ججوں میں کوئی بھی آکر آئینی عدالت میں بیٹھے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر آئین کہے کہ آئینی عدالت ہوگی تو آپ مانیں گے، عدالت کا کام آئین اور قانون پر عملدرآمد کرانا ہے ، ہم نے 30 سال کی جدوجہد کےبعد یہ فیصلہ لیا کہ آئینی عدالت بنے، ملک میں کسی کو مقدس گائے نہیں بننا چاہیے نئے میثاق جمہوریت میں پہلا مطالبہ ہے کہ وفاقی آئینی عدالت بننا چاہیے، کیا آپ یقین دلائیں گے کہ پوری 18 ویں ترمیم اڑانے کی دھمکی نہیں دی جائے گی، اتنے سارے کیسز ہیں جو سنے نہیں جاتے ہر چند ماہ بعد ایک سیاسی کیس اٹھ جاتا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ چاہتا ہوں صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالت ہو، ہم اب تک جو حکومت سے طےکرچکے ہیں وہ وفاقی آئینی عدالت ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ کمیٹی اتفاق رائے سے جج کا فیصلہ کرے، کمیٹی جس کو اتفاق رائے سے جج بنائے اسی کو جج بننا چاہیے، ہم ایسا نظام بنائیں جو آگے جاکر ہمیں تحفظ دلاسکے۔
وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی اور صدر ہائی کورٹ بار افضل حریفال نے بھی تقریب میں شرکت کی اور بار کے صدر نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور آئینی ترامیم کے معاملے پر وکلا کے تحفظات کا اظہار کیا اور پیپلز پارٹی کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا۔
صدر ہائی کورٹ بار افضل حریفال نے اپنی تقریر میں کہا کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے وکلا کے تحفظات ہیں، اگرعدالتی نظام انصاف نہیں دے رہا، وکلا عدالت پر عدالت کا قیام نہیں چاہتے۔ پیپلز پارٹی سے توقع رکھتے ہیں کوئی فیصلہ جلد بازی میں نہ کریں، عدالتوں میں مقدمات تاخیر کا شکار ہیں تو ججوں کی تعداد بڑھا دیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام ادارے زمین بوس ہورہے عدالتی نظام کو ختم نہیں ہونے دینگے، آئین کی شق 199 میں ترمیم کرنے سے تو بہتر ہے حکومت مارشل لا لگا دیں ہائی کورٹ آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق کی شقیں ختم کرنے سے جنگل کا قانون بنے گامیثاق جموریت کے بعد آئینی ترامیم کیوں نہیں لائیں گئی، میثاق جموریت میں سلامتی کونسل ختم کرنے اور میڈیا کی ازادی کی بات کی گئی لیکن ایسا نہ ہوا، الیکشن کمیشن خور مختار آج تک نہیں ہوسکا، کوئٹہ 25 اکتوبر کے بعد نادیدہ چیف جسٹس کو قبول نہیں کریں گے۔








