پاکستان میں اسٹیج ڈرامے ایک طویل عرصے سے مختلف نوعیت کی محافل کا حصہ بنے ہوئے ہیں، مگر ان ڈراموں میں عورت کے کردار اور اس کے ساتھ ہونے والے سلوک پر مسلسل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان ڈراموں میں عورت کو جس طریقے سے پیش کیا جاتا ہے اور ان میں جو نازیبہ اور فحاشی بھرے جملے استعمال کیے جاتے ہیں، وہ نہ صرف ان ڈراموں کو ایک تفریح کا ذریعہ بناتے ہیں بلکہ معاشرتی اقدار کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔

اسٹیج ڈراموں میں فحاشی کا استعمال ایک معمول بن چکا ہے، جہاں عورت کو صرف تفریح کا سامان سمجھا جاتا ہے۔ ایک طرف ڈرامے میں عورت کو بیوی، ماں، بہن یا بیٹی کے روپ میں دکھایا جاتا ہے، تو دوسری طرف اسے نازیبہ اور فحاش جملوں کے ذریعے تماشائیوں کو ہنسانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ڈراموں میں عورت کی عزت کو مسلسل پامال کیا جاتا ہے، چاہے وہ کسی گانے کی صورت میں ہو یا پھر غیر اخلاقی شاعری کے ذریعے۔ اس سب کا مقصد صرف اور صرف تماشائیوں کی ہنسی ہنسانا اور اس کے بدلے مال و دولت کمانا ہوتا ہے۔یہ اسٹیج ڈرامے دراصل معاشرے کے لیے ایک منفی پیغام دیتے ہیں، جس میں خواتین کو جنسی طور پر ابھارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ڈراموں میں عورت کے کردار کو ناپاک اور بے عزت کیا جاتا ہے، جس کا براہ راست اثر نوجوان نسل پر پڑتا ہے۔ یہ ڈرامے صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا طریقہ ہیں جس سے عورت کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کو معمول بنایا جاتا ہے۔

کچھ عرصے سے حکومت کے نمائندے، جیسے عظمیٰ بخاری صاحبہ نے اس صورتحال پر سختی سے اعتراض کیا ہے اور اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسٹیج ڈرامے خواتین کی توہین کر رہے ہیں اور انہیں بے پردہ کرنے کو فن سمجھا جا رہا ہے، جو کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس نوعیت کے ڈراموں پر مکمل پابندی لگائی جائے تاکہ معاشرتی اقدار کی حفاظت کی جا سکے۔بہت سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں خود کو "فنکار” کہلانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ طرز عمل نہ صرف ان کی ذاتی عزت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی بے عزتی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ان فنکاروں کے بارے میں سکھ برادری اور دیگر غیر مسلم کمیونٹیز بھی یہی رائے رکھتی ہیں کہ عورت کے ساتھ اس طرح کی توہین کرنا کسی بھی معاشرتی یا مذہبی اصول کے خلاف ہے۔

آج اگر عظمیٰ بخاری صاحبہ اس اسٹیج ڈراموں پر پابندی کی بات کر رہی ہیں تو یہ دراصل اس بات کی ضرورت ہے کہ اس نوعیت کے فحاشی بھرے ڈراموں کو بند کیا جائے اور ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں عورت کی عزت و احترام کو مقدم رکھا جائے۔ ان اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے افراد کو محض فنکار نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں وہ مقام اور عزت دی جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ ان ڈراموں کی روک تھام سے نہ صرف معاشرتی تبدیلی ممکن ہے بلکہ ایک صحت مند اور اخلاقی ماحول بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔عظمیٰ بخاری صاحبہ سے درخواست ہے کہ ان اسٹیج ڈراموں پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ ہمارا معاشرہ بہتر اور اخلاقی اصولوں پر قائم ہو سکے۔

Shares: