سوشل میڈیا اور صحافت، معتبر کون؟
تحریر:حبیب خان
آج جب ہم سوشل میڈیا کے سیلاب میں بہے جا رہے ہیں تو صحافت کا مفہوم بھی بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر سوشل میڈیا پوسٹ، ہر وڈیو یا ہر تقریر صحافت ہے؟ کیا صرف ایک موبائل فون اور انٹرنیٹ کنکشن رکھنے والا فرد صحافی کہلا سکتا ہے؟ یہ سوال محض تکنیکی یا جذباتی نہیں بلکہ صحافت کے مستقبل اور معاشرے کے اجتماعی شعور سے جڑا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں معلومات تک فوری رسائی ممکن بنائی، وہیں اس نے خبر اور رائے کے درمیان لکیر دھندلا دی۔ اب ہر وہ شخص جو اپنی رائے کو وائرل کرنا چاہتا ہے، وہ خود کو صحافی کہنے لگا ہے۔ حالانکہ صحافت محض ایک وڈیو اپلوڈ کرنے یا کسی واقعے پر تبصرہ کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ادارتی جانچ، حقائق کی تصدیق، توازن، اور اخلاقی ضابطوں کی ایک پوری دنیا چھپی ہوئی ہے۔
کیا صرف سوشل میڈیا پر خبریں پوسٹ کرنا صحافت کہلایا جا سکتا ہے؟ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا سوال ہے مگر اس کے اثرات بڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر خبریں پوسٹ کرنا صحافت کا ایک جزو ہو سکتا ہے، لیکن یہ مکمل طور پر صحافت نہیں کہلایا جا سکتا۔ صحافت ایک منظم عمل ہے جس میں تحقیق، تصدیق اور غیر جانبداری شامل ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر خبریں بغیر تصدیق کے پھیلائی جاتی ہیں، جو افواہوں یا غلط معلومات کا باعث بن سکتی ہیں۔ صحافت میں اخلاقیات اور معیارات کی پابندی ضروری ہے جبکہ سوشل میڈیا پر پوسٹس عموماً ذاتی رائے یا سنسنی خیزی پر مبنی ہوتی ہیں۔
یہاں سب سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر وہ شخص جو سوشل میڈیا پر ویڈیو بنا کر تبصرہ کرے، صحافی ہے؟ اس کا واضح جواب ہے کہ نہیں۔ ہر شخص جو سوشل میڈیا پر ویڈیو بناتا یا تبصرہ کرتا ہے، صحافی نہیں کہلا سکتا۔ صحافی وہ ہوتا ہے جو تربیت یافتہ ہو، معلومات کی تصدیق کرتا ہو اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی پابندی کرتا ہو۔ سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے والے اکثر افراد ذاتی رائے دیتے ہیں، جن میں تحقیق یا غیر جانبداری کی کمی ہوتی ہے۔ یہ انہیں رائے دہندہ یا مواد تخلیق کار بنا سکتا ہے، لیکن صحافی نہیں۔
معیار اور نیت کا یہ فرق محض صحافت کی ساکھ کا مسئلہ نہیں بلکہ معاشرتی سچائی کا سوال ہے۔ ذاتی رائے یا تاثر فرد کے تجربات، جذبات، یا نقطہ نظر پر مبنی ہوتا ہے، جو اکثر غیر مصدقہ اور جانبدار ہو سکتا ہے۔ تحقیق شدہ خبر حقائق پر مبنی ہوتی ہے، جس کی تصدیق معتبر ذرائع سے کی جاتی ہے اور اسے غیر جانبداری کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر رائے اکثر سنسنی خیز یا جذباتی ہوتی ہے، جبکہ تحقیق شدہ خبر معروضیت اور ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔
روایتی صحافت میں ادارتی جانچ اور معلومات کی تصدیق نہ ہو تو صحافت افواہ میں بدل جاتی ہے۔ صحافی کا کام صرف رپورٹنگ نہیں بلکہ حقائق کے گرد سچائی کی دیوار بنانا بھی ہے۔ ادارتی عمل میں متعدد مراحل شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ حقائق کی جانچ، ذرائع کی تصدیق، اور مواد کی معروضیت۔ یہ عمل غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکتا ہے اور عوام کا اعتماد برقرار رکھتا ہے، جو سوشل میڈیا پر اکثر غائب ہوتا ہے۔
لیری کنگ کا خود کو صحافی نہ سمجھنا ہمیں سکھاتا ہے کہ میڈیا کیمرے کا نام نہیں بلکہ ذمہ داری کا مقام ہے۔ وہ ایک انٹرویو کنندہ اور میزبان تھے، لیکن انہوں نے صحافت کے پیشہ ورانہ تقاضوں کو تسلیم کیا، جو تحقیق اور رپورٹنگ پر مبنی ہیں۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر میڈیا شخصیت صحافی نہیں ہوتی، اور صحافت ایک مخصوص کردار اور مہارت کا نام ہے۔ اگر ایک بین الاقوامی سطح کا اینکر خود کو صحافی نہیں مانتا تو سوشل میڈیا پر چند وڈیوز بنانے والا خود کو صحافت کا نمائندہ کیسے کہہ سکتا ہے؟
سچ کو اگر وائرل ہونے کی خواہش پر قربان کر دیا جائے تو صحافت محض تفریح بن جاتی ہے۔ صحافت کا مقصد ذمہ داری کے ساتھ سچ سامنے لانا ہے، نہ کہ صرف وائرل ہونا۔ وائرل ہونا سوشل میڈیا کی خصوصیت ہے، جہاں سنسنی خیزی اور توجہ اہم ہوتی ہے۔ صحافت کا ہدف عوام کو درست، تصدیق شدہ، اور معروضی معلومات فراہم کرنا ہے، جو معاشرے میں بیداری اور مثبت تبدیلی کا باعث بنے۔ وائرل ہونا صحافت کا ذیلی نتیجہ ہو سکتا ہے، لیکن بنیادی مقصد نہیں۔
اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ سچ اور صحافت کو بچانے کے لیے ہمیں فوری طور پر سوشل میڈیا اور صحافت کے فرق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس کے لیے عوامی شعور، تعلیم و تربیت، اور صحافتی اقدار کی بحالی ضروری ہے۔ مواد تخلیق کاروں کو چاہیے کہ وہ سچائی کے ساتھ جُڑنے سے پہلے سچ کی ذمہ داری کو سمجھیں۔ صحافت ایک پیشہ ہے جو سچائی، غیر جانبداری، اور ذمہ داری پر مبنی ہے، جبکہ سوشل میڈیا ایک پلیٹ فارم ہے جو ہر قسم کے مواد کو جگہ دیتا ہے۔ اگر ہم یہ فرق بھول گئے تو صحافت کا چراغ سنسنی کے طوفان میں بجھ جائے گا۔