یوم دفاع ،سوشل میڈیا اور مہنگائی،تجزیہ: شہزاد قریشی

0
44
shehad qureshi

پوری قوم نے یوم دفاع منایا یہ دن شہیدوں کا دن ہے کل بھی یوم دفاع تھا جس کو چھ ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور آج بھی یوم دفاع ہے۔ وطن عزیز اور قوم کی سلامتی کے لئے پاک فوج اور جملہ ادارے سرحدوں پر قربانیاں دے رہے ہیں۔ بھارت آج کے اس ایٹمی طاقت کے حامل ملک اور پاک فوج اور اس کے جملہ اداروں کی بدولت فوجی جارحیت نہیں کرسکتا اس نے دوسرا محاذ کھول دیا ہے جسے سوشل میڈیا کہا جاتا ہے بدقسمتی سے وطن عزیز میں آج بھی میر جعفر اور میر صادق جیسے کردار موجود ہیں تاہم ہمارے قومی ایمان کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ہمارا دشمن زندہ ہے ہمارا یوم دفاع بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔

بلاشبہ اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ چینی اگر مہنگی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ غیر ملکی کرنسی کی اسمگلنگ میں کون ملوث ہے؟ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عوام کو جوابدہ ہیں اور بیوروکریسی بھی جوابدہ ہے؟ کیا شوگر ملیں عام آدمی کی ہیں؟ کیا ڈالر کی اسمگلنگ میں عام آدمی ملوث ہے؟ ملک کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور آئی ایم ایف کا مقروض عوام نے بنایا ہے؟ ہرگز نہیں اس میں بڑے بڑے صنعتکار‘ سرمایہ دار اور ان کے ہم پیالہ بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں اور سیاستدان بھی۔ قارئین کو یاد ہوگا سابق صدر جنرل پرویز مشرف مرحوم کے دور حکومت میں وکلاء کی ایک تحریک شروع ہوئی جس کو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور سینئر وکلاء نے قیادت کی تھی اور دلفریب نعرہ تھا ریاست ہوگی ماں جیسی کیا پھر اس دلفریب نعرے پر کسی نے عمل کیا؟ اسی طرح سیاسی جماعتیں الیکشن کرائو کا نعرہ لگاتی رہیں کیا سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے کبھی جمہوریت کو مستحکم کیا؟۔ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی۔ قانون کی حکمرانی کے لئے کوئی عملی اقدامات کئے؟ اقتدار میں آکر ملکی وسائل پر توجہ دی؟ عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دی ریاست کو درپیش مسائل پھر توجہ دی گئی؟ آئین پاکستان گلہ کرے تو کس سے کرے۔ حصول اقتدار اور کون بنے گا وزیراعظم کی جنگ سیاسی جماعتوں کے درمیان دوبارہ شروع ہوچکی ہے۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی بدولت آج پاکستان اور عام آدمی بھگت رہا ہے۔ اس میں ہماری سول بیوروکریسی بھی شامل ہے۔ ذمہ داران ریاست نے گزارش ہے کہ بہت ہوچکا۔ بقول ساغر صدیقی
چراغ طور جلائو بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھائو بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے۔
فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا کہیں سے ڈھونڈ کے لائو بڑا اندھیرا ہے۔

Leave a reply