پنجاب کالج ریپ کا ڈراپ سین،سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کی سفارش

social media

پنجاب کالج ریپ کیس کا ڈراپ سین،پنجاب کالج لاہور میں ریپ کا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ جعلی واقعہ بنا کر جعلی اکاؤنٹس سے پھیلایا گیا اور طلباء میں شرپسند عناصر کو گھسا کر اشتعال انگیزی کی گئی۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر آ گئی۔

چیف سیکرٹری پنجاب ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، سیکرٹری داخلہ ،سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ،سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن نے رپورٹ مرتب کی،کمیٹی نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کی سفارش کر دی،کمیٹی رپورٹ کے مطابق معاملے کو سوشل میڈیا پر پوسٹوں کے ذریعے اچھالا گیا، سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے، ہرپوسٹ سنی سنائی باتوں اور افواہوں پر مبنی تھی ، اطلاع ملنے پر پولیس نےکالج انتظامیہ سے بھی رابطہ کیا، پولیس نے اس بیسمنٹ کا معائنہ بھی کیا جس کا مبینہ واقعے میں ذکر کیا گیا، پولیس نے سی سی ٹی وی ویڈیوز اور دیگر ریکارڈنگ دیکھیں، پولیس نے سی سی ٹی وی ویڈیوز اور دیگر ریکارڈنگ تحویل میں بھی لیں،تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ ملزم گارڈ چھٹی لے کرگیا ہوا ہے،کالج میں اس کی چھٹی کی درخواست بھی موجود تھی، من گھڑت اسٹوری کے لیے مخصوص طلبہ کا ویڈیو پیغام باربار استعمال کیا گیا، اس لڑکی نےکمیٹی کو بتایا کہ وہ کیمپس 10 کی اسٹوڈنٹ ہی نہیں پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے معاملات کو ہینڈل کیا، بے بنیاد خبر پھیلانے کا مقصد امن و امان کی صورتحال خراب کرنا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالب علموں کو اپنے معاملات مثبت انداز میں لینے کی ضرورت ہے،طالب علموں کو منفی اور مثبت سرگرمیوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے،طالب علموں کو فیک نیوز فلٹر کرنے میں رہنمائی دینے کی ضرورت ہے،والدین اپنے بچوں کا استحصال نہ ہونے دیں،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافے کی ضرورت ہے،کمیٹی نے سوشل میڈیا پر مبینہ واقعے پر نفرت انگیز معاملے کی مزید تفتیش کی سفارش کر دی،رپورٹ میں کہا گیا کہ انفلوئنسرز اور وی لاگرز کو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے، فیک نیوز پھیلانے کیلئے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس استعنال کیے گئے،فیک نیوز کے ذریعے معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا،اس واقعے سے فیک نیوز کے ذریعے اشتعال پھیلانا بھی ثابت ہوتا ہے، حکومت کو متاثرہ خاندان کی عزت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، 9 صفحات پر مشتمل رپورٹ پر چیف سیکرٹری پنجاب سمیت تمام افسران کے دستخط موجود ہیں،کمیٹی نے 15 اور 16 اکتوبر کو ریکارڈ کیے گئے 16 افراد کے بیانات کو اہم قرار دیا ،ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر شاید وحید کے بیانات ریکارڈ کیے گئے،جنرل ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین اور ڈی ایم ایس ڈاکٹر وقاص یاسین ، ایور کیئر ہسپتال کے کرنل ریٹائرڈ صابر حسین بھٹی اور اتفاق ہسپتال کے واصف بیانات ریکارڈ کیے گئے،کمیٹی نے جنرل ہسپتال کے عملے سے رواں ماہ جنسی زیادتی سے متعلق آنے والے مریضوں سے متعلق بھی تفتیش کی

دوسری جانب پنجاب کالج مبینہ زیادتی واقعہ پر احتجاج کی تحقیقات کے لئےبنائی گئی جے آئی ٹی نے ڈس انفارمیشن پھیلانے والوں کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے،محکمہ داخلہ کی جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ہوا، اجلاس میں پولیس اور حساس اداروں کے نمائندے شریک ہوئے،اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں شیئر کرنے والوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا اور اس ڈیٹا کی روشنی میں ویڈیو اور پوسٹیں شیئر کرنے والوں کو جے آئی ٹی میں بلایا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور میں طالبہ سے متعلق وائرل خبرکی تحقیقات کیلئے ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید کی سربراہی میں 6 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی تھی،جے آئی ٹی میں تین پولیس اور تین حساس اداروں کے نمائندے شامل ہیں جبکہ جے آئی ٹی تھانہ ڈیفنس اے میں درج مقدمے کی تفتیش کر رہی ہے۔

ہر بچہ کہہ رہا تھا زیادتی ہوئی مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں،سرکاری وکیل

پنجاب کالج سوشل میڈیامہم،عمران ریاض،سمیع ابراہیم سمیت 36 افراد پر مقدمہ

راولپنڈی،طلبا کا احتجاج، توڑ پھوڑ،پولیس کی شیلنگ

مبینہ زیادتی ،طلبا کا احتجاج، آئی جی پنجاب کو عدالت نے کیا طلب

پنجاب کالج مبینہ زیادتی کیس،کالج انتظامیہ کی طلبا سے کلاسوں میں جانے کی اپیل

لاہور کے کالج میں طالبہ سے زیادتی ،مبینہ من گھڑت ویڈیو کے خلاف مقدمہ درج

لاہور میں طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی: پنجاب حکومت کی ہائی پاور کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ

پنجاب کالج مبینہ زیادتی، پولیس واقعہ سے انکاری،طلبا کا آج پھر احتجاج

پنجاب کالج مبینہ زیادتی بارے من گھڑت افواہ پھیلانے والا گرفتار

Comments are closed.