جاپانی کچھ باتوں میں بڑی کمال سوچ رکھتے ہیں. جیسے یہ اپنے گھر اور اس میں موجود اپنے روایتی برتنوں فرنیچر کا بڑا دھیان رکھتے ہیں. صاف ستھرے گھر میں جوتوں کے ساتھ نہیں گھومتے یا گھر کے سلیپر الگ رکھتے ہیں. لیکن ایک خوبی بڑی کمال ہے. انکا کوئی قیمتی خاندانی پیالی کیتلی ٹوٹ جائے تو اس کی مرمت سونے یعنی گولڈ سے کر لیتے ہیں.
ٹوٹ کر دوبارہ جوڑ بنانے کو یہ ایسا قیمتی بنا دیتے ہیں کہ وہ جوڑ خود ایک کمال بن جاتا ہے. ایک پرانی عربی کتاب میں کوئی عربی کہاوت یاد آتی ہے جسکا مفہوم ہے کہ مرنا کوئی نہیں چاہتا ورنہ اسے گہرے پانی میں پھینک دو یہ فوراً ہاتھ پیر چلانا شروع کردے گا. پھر لوگ اپنی زندگی سے ایسے بے زار ہوکر بیٹھ کیوں جاتے ہیں کہ مرنا ان کو مشکل نہیں لگتا.؟
وہ اصل میں اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں. اندر کی یہ جنگ ان کو تنہا لڑنی پڑ جاتی ہے. جیسے گہرے پانی میں انسان بقا کی جنگ لڑ رہا ہو اور اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو تو اپنی ساری طاقت و توانائی خرچ کر کے وہ بے بسی سے یا پھر ڈوبنے کا انتظار کرتا ہے یا کسی ایسے ہاتھ کا جو اسے کھینچ کر نکال لے. اب بھلے زندگی کا ہاتھ پہلے پہنچا یا موت کا.
ہمارے آس پاس سب ہی تیراک نہیں ہوتے. تنہا اپنی جنگ جیت لینے والے سورما نہیں ہوتے. اس لئے کسی کو تنہا نہ چھوڑیں. جاپانی جیسے اپنے برتن کا جوڑ سونے سے بنالیتے ہیں ایسے ہی کسی ٹوٹے ہوئے کو جوڑنے میں مدد دینے والے بھی سونے جیسے قیمتی لوگ ہوتے ہیں. اس لئے حقوق العباد کے اعمال سونے جواہرات کے ساتھ تولے جائیں گے.