محسن، غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں… ملبے میں دب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے

سیالکوٹ (باغی ٹی وی،بیوروچیف شاہد ریاض کی خصوصی رپورٹ)دریائے سوات کے کنارے آج پھر لہریں خاموش نہیں۔ وہ کسی بین کرتی ماں کی طرح چیخ رہی ہیں۔ آج پھر پانی کا شور نہیں بلکہ معصوم جانوں کی سسکیوں کا ماتم سنائی دے رہا ہے۔ سیالکوٹ، ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کی 12 زندگیاں لمحوں میں بہہ گئیں۔ نہ کوئی جنگ تھی، نہ دہشت گرد حملہ، صرف ریاستی غفلت تھی۔ یہ واقعہ قدرت کا عذاب نہیں بلکہ انسانوں، اور درحقیقت حکومتوں کے پیدا کردہ ظلم کا نتیجہ ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران اپنے محلوں کے آرام میں مدہوش ہوں اور ریاست کا وجود صرف پروٹوکول تک محدود رہ جائے، تو پھر حادثے نہیں بلکہ سانحے جنم لیتے ہیں — وہ سانحے جو خون رلاتے ہیں۔ دریائے سوات کے کنارے وہ لمحہ تاریخ کے ماتھے پر سیاہ دھبے کی صورت نقش ہو چکا ہے، جب ایک خاندان خوشی خوشی آیا اور واپسی پر لاشوں میں تبدیل ہو چکا تھا۔

بارہ زندگیاں ، جن میں معصوم بچے، خواتین، والدین، بہن بھائی، اور ایک چار سالہ بچی شامل تھی، جو شاید آخری بار صرف اتنا بولی ہو گی:
"بابا، مجھے بچا لو!”
اور اپنے بابا کے کندھوں پر چڑھ گئی۔
مگر وہ نہ جانتی تھی کہ یہ پاکستان ہے . یہاں عوام کے بچوں کے لیے نہ کندھے محفوظ ہیں اور نہ میسر۔

کیا یہ اٹھارہ افراد، بشمول اس معصوم بچی کے، غیر ملکی سیاح ہوتے تو ہیلی کاپٹر آ جاتا؟
کیا وہ کسی وزیر، مشیر یا اشرافیہ کے رشتہ دار ہوتے تو ریسکیو ٹیمیں پلک جھپکتے پہنچ جاتیں؟
مگر افسوس! وہ صرف "عام پاکستانی” تھے۔
نہ ہیلی کاپٹر آیا، نہ ریاست جاگی، نہ کوئی بچانے والا پہنچا۔

یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ سوات انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت جو "سیاحت کے فروغ” کے خواب دکھاتی رہی، جو بل بورڈز پر پہاڑ، دریا، اور جنگلات کی خوبصورتی دکھا کر فخریہ دعوے کرتی رہی . وہ حکومت ایک سادہ سا انتباہی بورڈ بھی نہ لگا سکی، نہ کوئی حفاظتی انتظامات کیے، نہ کوئی واچ ٹیم تعینات کی۔

حضرت عمرؓ کا قول آج بھی تاریخ کی دیواروں پر گونجتا ہے:
"اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو روزِ قیامت عمرؓ سے اس کی بازپرس ہو گی!”
لیکن یہاں؟ دریائے سوات کے کنارے بارہ انسان ڈوب گئے اور نہ کوئی پوچھنے والا، نہ کوئی شرمندگی سے سر جھکانے والا۔

یہ جانیں اگر کسی دہشت گردی یا دشمن کے حملے میں نہ بھی گئیں، تو حکومتی نااہلی اور بےحسی کی وجہ سے ضرور قتل ہوئیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بغداد کے زوال سے قبل دریا بہتے تھے، مگر انصاف اور غیرت مر چکے تھے۔
آج سوات میں بھی دریا بہہ رہا تھا مگر ساتھ ہی ریاستی شعور، انسانی ہمدردی، اور حکومتی ذمہ داری بھی بہہ گئی۔

خیبر پختونخواہ کی انتظامیہ میٹنگز میں "تصویری سیاحت” کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی،
مگر دریا کی لہروں میں ڈوبتی انسانیت کی آہیں کسی وزیر، مشیر، یا افسر کی سماعت تک نہ پہنچ سکیں۔

یہ تحریر ایک سوال ہے…
ایک سوال اُس معصوم بچی کی طرف سے…
جس نے بس اتنا چاہا تھا کہ:
"بابا، بچا لیں مجھے”
مگر ریاستی سستی نے اس کا بابا بھی اس سے چھین لیا۔

کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟
کب تک صرف فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھ جائیں گے؟
کب تک حکمرانوں کے محل روشن اور عوام کی قبریں تاریک رہیں گی؟

یہ صرف ایک خاندان کی موت نہیں،
یہ خیبر پختونخواہ کی ناکام حکمرانی کا نوحہ ہے….
جہاں سیاحت کے نام پر اشتہار تو لگائے گئے، وائرل ویڈیوز تو بنائی گئیں،
مگر دریا کنارے عوام کے تحفظ کے لیے نہ کوئی سیفٹی پلان، نہ ریگولیشن، نہ تربیت، نہ جان کی قدر کی گئی۔

یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں:
ریسکیو کہاں تھا؟ سول ڈیفنس کہاں تھا؟ پولیس؟ وارننگ دینے والا کوئی عملہ؟
اگر پانی کا بہاؤ بڑھ رہا تھا تو پیشگی اطلاع کیوں نہ دی گئی؟
اگر دریا کنارے ناجائز تجاوزات تھیں تو ان کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟

خدارا!
سیاحت صرف خوبصورت وادیوں، پہاڑوں، اور پوسٹروں کا نام نہیں ….
سیاحت تحفظ مانگتی ہے، سہولتیں مانگتی ہے اور ذمہ داری مانگتی ہے۔

یہ جاگنے کا وقت ہے۔
ورنہ ایک دن یہ دریا ہمیں بھی نگل جائیں گے۔

Shares: