ایس سی او وزراءخارجہ کونسل کا غیرمعمولی ورچوئل اجلاس سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خطاب کا مکمل متن
عزت مآب وزیرخارجہ سرگئے لاوروف
ایس سی او رکن ممالک کے معزز شرکاء
عزت مآب سیکریٹری جنرل ویلاد میر نوروف
خواتین وحضرات
آج دنیا نظر نہ آنے والے نامعلوم دشمن سے برسرپیکار ہے۔
ہفتوں کے اندر ہی کورونا وائرس جنگل کی آگ کی مانند تمام معاشروں اور صحت عامہ کے نظام میں پھیل چکا ہے اور پہلے ہی قلیل وسائل کو مزید ختم کررہا ہے، قیمتی جانیں لے رہا ہے اور معیشت کو اپاہج بنارہا ہے اور دنیا بھر کے کاروبار کو مفلوج بنا رہا ہے
اس پیمانے پر کچھ بھی اس صدی میں نہیں دیکھاگیا۔
4.1 ملین لوگ اس سے متاثر ہیں اور 3 لاکھ کے قریب لوگ موت کی وادی میں جاچکے ہیں۔
چند دن کے اندر ہی دنیا میں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ۔
آج جب ہم یہاں موجود ہیں آن لائن طریقے سے ، کورونا کا انسانی زندگی، معاش اور تمدن پر حملہ جاری ہے۔
معزز شرکاءکرام
اس افسوسناک صورتحال میں، میں ان تمام خاندانوں سے دلی ہمدردی اور تعزیت کرتا ہوں جن کے پیارے کورونا وباءکی نذر ہوگئے ہیں۔ ہم ان کے غم میں شریک ہیں ۔
میں روس کی جانب سے بروقت اجلاس منعقد کرنے کے اقدام کو سراہتے ہوئے ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتا ہوں۔
مجھے اعتماد ہے کہ یہ وڈیو کانفرنس ایس سی او کو کورونا کے خلاف ایک مضبوط اور اجتماعی کاوشوں کا محور بنائے گی۔
معزز خواتین وحضرات
یہ اجلاس فسطائیت، عسکریت اور متشدد قومیت پسندی کے خلاف فتح اور اقوام متحدہ کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے۔
کورونا وباءکی صورت میں اقوام متحدہ کو ان 75سال میں اپنی افادیت کے سب سے مشکل ترین امتحان کا سامنا ہے۔
یہ امر باعث اطمنان ہے کہ ایس سی او نے اپنے قیام سے لے کر اب تک اقوام متحدہ کے منشور کو مقدم رکھا ہے اور کثیرالقومیتی مقصد کو آگے بڑھایا ہے۔
دنیا کی 40 فیصد آبادی کے مسکن اور اس کے چوتھائی جی ڈی پی کے طورپر ایس سی او خطہ ٹیکنالوجی، مادی، انسانی اور مالی وسائل سے مالامال ہے جن کی مدد سے کورونا جیسی سخت مشکل کے خلاف کوششوں میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
مشترکہ مفاد، باہمی اعتماد واحترام کے شنگھائی جذبے کا مظہر ایس سی او درپیش چیلنج سے نمٹنے میں جامع تعاون استوار کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرسکتی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین اس جنگ میں خاص طورپر ایک کامیاب، موثر اور قابل تقلید مثال ہے ۔
پاکستان اس بحران سے نبردآزما ہونے میں چین کی انتہائی ذمہ دارانہ کاوشوں کو خراج تحسین پیش پیش کرتا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وباءکی روک تھام میں مدد کی فراہمی کو سراہتا ہے۔
محترم حاضرین کرام
26 فروری 2020کو پہلا کورونا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان وباءکی روک تھام کے لئے انتہائی احتیاط پر مبنی موثر حکمت عملی پر کاربند ہے۔
ٹیسٹ، ٹریس اور کورنٹین کی استعداد میں اضافہ کرتے ہوئے پاکستان نے سمارٹ لاک ڈاون کو اختیار کیا۔ رضاکار نوجوانوں کی ایک ریلیف فورس بنائی گئی ہے تاکہ ضرورت مندوں کی مدد کی جاسکے۔ 8 ارب امریکی ڈالر کا معاشی امدادی پیکج دیاگیا ہے۔
ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں نے ہمارے سماجی تحفظ کے پروگرام سے استفادہ کیا ہے۔
لاک ڈاون اور طلب میں کمی کے باعث روزگار کے مسائل سے دوچار افراد کو10 ارب درخت (بلین ٹری سونامی منصوبہ) کے ذریعے روزگار فراہم کیاجارہا ہے۔
مزدور پیشہ صنعتوں کے لئے مراعات کا پیکج دیاگیا تاکہ معیشت کا پہیہ رواں رہے۔
صحت کے نظام کو استوار رکھنے کے لئے کورونا وباءسے نمٹنے اور اس کے موثر مقابلے کے لئے 595 ملین ڈالر مالیت کی حکمت عملی (پی۔پی۔آر۔پی) کا اجرا کیاگیا ہے۔
پاکستان میں اب تک کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے جبکہ 659 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ کورونا کا مرض پاکستان میں اپنی انتہاءکو پہنچ چکا ہے۔
ٹیسٹنگ کی استعداد میں اضافے کے ساتھ اگرچہ متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ہم نے متاثرین کی مقدار میں بہت بڑی تعداد میں اضافہ نہیں دیکھا۔ اموات کی تعداد بھی محدود ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ احتیاط کا دامن ہم نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمیں خبردار رہنا ہے۔
غالباً صحت سے بڑھ کر معاشی چیلنج بھی درپیش ہے۔ ترقی پزیر ممالک کورونا وباءکے باعث سنگین مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔
عالمی بنک، آئی ایم ایف اور جی 20 کی جانب سے قرض کی ازسرنوتشکیل کے اقدام کا پاکستان خیرمقدم کرتا ہے لیکن ہم سجھتے ہیں کہ اس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ترقی پزیر ممالک کے ذمے واجب الادار قرضوں میں ریلیف کے عالمی اقدام کا مقصد ایک جامع منصوبہ کا اجراءہے تاکہ غریب ممالک کو قرض میں سہولت ملے اور وہ اپنے وسائل کورونا سے مقابلے اور اپنے لوگوں کی جان بچانے کے لئے بروئے کار لاسکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو سنبھالا دے کر شرح نمو کو مستحکم کرسکیں۔
کورونا وباءسے مل کر مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے میں ایس سی او کا اشتراک عمل ناگزیر ہے۔
معزز حاضرین کرام
کورونا وباءکے خلاف جنگ لڑتے ہوئے ہمیں خطے کی سلامتی کو لاحق دیگر خطرات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔
امریکہ اور طالبان میں امن معاہدہ ایک تاریخی پیش رفت ہے جس سے افغانستان میں امن اور استحکام کی بحالی کی امیدیں روشن ہوگئی ہیں جو دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے۔
افغان قیادت کے لئے موقع ہے کہ وہ اس تاریخی مرحلے سے فائدہ اٹھائیں اور اجتماعی وجامع تصفیہ کے لئے مل کر کام کریں۔
ایس سی او افغانستان رابطہ گروپ کے ذریعے ایس سی او اس اہم مرحلے پر امن واستحکام کے فروغ میں اپنا نہایت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
معزز حاضرین محفل
فسطائیت، عسکریت اور متشدد قومیت پسندی کے خلاف فتح کی 75 ویں سالگرہ مناتے ہوئے ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ دیگر قومیتوں سے بیزاری اور اسلام مخالف سوچ کو دنیا میں پنپنے نہ دیا جائے اور ان رجحانات کو دنیا مسترد کرے۔
ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دہشگت گردی اور انتہاءپسندی کی ہر شکل سے نمٹنا ہماری اولین ترجیح رہنی چاہئے۔
اس کے ساتھ ساتھ کسی کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ دہشت گردی سے متعلق الزامات کو سیاسی ہتھیار کے طورپر کسی دوسرے ملک، قوم یا مذہب کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کرے۔
غیرقانونی قبضہ کے شکار عوام کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے اور ان کی مذمت کرنی چاہئے۔
محترم حاضرین محفل
ہم ایس سی او کے وباوں کی روک تھام میں تعاون کے مجوزہ معاہدے اور عالمی ادارہ صحت اور ایس سی او کے درمیان مفاہمتی یادداشتوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم اس ضمن میں اجتماعی کوششوں میں شرکت کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
میں اس موقع پر درج ذیل سفارشات پیش کرنا چاہوں گا؛
اول یہ کہ ہمیں عالمی قانون اور اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کی مرکزیت کو بنیادی اصول کے طورپر تسلیم کرنا ہوگا اور معیار بنانا ہوگا۔
کورونا وبا کے تناظر میں کسی طبقہ کے ساتھ مذہب، رنگ ونسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی طبقہ کواس وباءکے لئے مورد الزام ٹھرایا یا نشانہ بنایاجائے۔
دوم، یہ کہ بہترین طریقوں کو اختیارکیاجائے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کے لئے صحت کی وزارتوں میں رابطوں کو بڑھایا جائے۔
سوم، یہ کہ ہمیں ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہئے جہاں کورونا وائرس پر مشترکہ تحقیق کے لئے ہم سائنسی اور تکنیکی صلاحیت کو جمع کرسکیں تاکہ کورونا وباءکے علاج کے لئے ویکسین کی تیاری یا کسی شفا کے حصول کی راہ ہموار ہوسکے۔
چہارم، یہ کہ ایس سی او ممالک کو نادار طبقات اور معاشروں کی معاشی مدد کے پہلو سے تبادلہ خیال کرنا چاہئے۔ پاکستان کی اس ضمن میں تجویز ہوگی کہ ایس سی او کی سطح پر مشترکہ ورکنگ گروپ برائے انسداد غربت اور سینٹر آف ایکسیلنس تشکیل دیاجائے۔
آخر میں میری تجویز ہوگی کہ ہمیں اپنے ہسپتالوں اور لیبارٹریوں میں تعاون مزید بڑھانا چاہئے اور ایس سی او ہسپتال الائنس کی تشکیل کے لئے کام کرنا چاہئے۔
75 برس قبل جیسے متشدد قومیت پسندی کی قوتوں کے خلاف دنیا نے فتح حاصل کی تھی، آج کورونا وباءکے خلاف دنیا کو اسی اتحاد اور مقصدیت پر آنا ہوگا تاکہ اس چیلنج کے خلاف دنیا فتح حاصل کرے۔
ایس سی او میں یہ کردکھانے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے
سینٹ پٹرز برگ میں سربراہان مملک کی کونسل کے متوقع اجلاس کے حوالے سے ہم روسی پریذیڈنسی کی کامیابی کے لئے نیک تمناوں کا اظہار کرتے ہیں۔
میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔