سندھ میں ریاستی رٹ ختم؟ عدالتیں بول پڑیں، سیاست دان مجرموں کے پشت پناہ
تحریر: منصور بلوچ،تنگوانی
سندھ، خصوصاً سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے اضلاع شکارپور، گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ، جیکب آباد، خیرپور، قمبر شہدادکوٹ اور لاڑکانہ اس وقت بدترین بدامنی، اغوا برائے تاوان، اور جرائم کی لپیٹ میں ہیں۔ خیبرپختونخواکے کچھ علاقے جو ماضی میں شدت پسندی کا شکار رہے، آج امن و امان کے لحاظ سے سندھ سے کہیں بہتر نظر آتے ہیں۔ پولیس کے اختیار، وقار اور کردار پر سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔ سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نے پولیس کو بےاختیار اور بےوقعت کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس صلاح الدین پنہور کی فروری،مارچ 2023ء کی عدالتی ججمنٹس میں امن و امان کی خرابی کے اصل اسباب اور سیاسی سرپرستی میں سرگرم مجرموں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان فیصلوں میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ کس طرح مجرموں کو سیاسی تحفظ دیا جا رہا ہے اور کیسے ریاستی ادارے ان کے خلاف مؤثر کارروائی سے قاصر ہیں۔
ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں، جس کی صدارت صدر آصف علی زرداری نے کی، سیکیورٹی اداروں نے واضح طور پر بتایا کہ بدامنی کے مرکزی کردار خود حکمران جماعت سے وابستہ ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود نہ رینجرز آپریشن ہوا، نہ پولیس کو بااختیار بنایا گیا اور نہ ہی جدید اسلحہ یا وسائل فراہم کیے گئے۔
آئی جی سندھ کی جانب سے پیش کردہ "پلان اے” اور "پلان بی” پر بھی کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوئی حالانکہ اربوں روپے کا بجٹ امن و امان کے لیے مختص کیا گیا۔ عوامی حلقوں کی جانب سے ان فنڈز کے آڈٹ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
ان حالات میں جمعیت علماء اسلام واحد جماعت ہے جس نے مسلسل عوامی سطح پر آواز بلند کی۔ مولانا راشد محمود سومرو نے متعدد بار احتجاج، جلسے اور امن مارچ کے ذریعے حکومت کو متوجہ کیا۔ سکھر میں ایک تقریب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر اعلیٰ حکام کی موجودگی میں انہوں نے جرأت سے مطالبہ کیا کہ "پولیس کو بااختیار بنایا جائے ورنہ عوام خود سڑکوں پر نکلیں گے۔”
سندھ میں جب تک اصل کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر پولیس کو مکمل اختیارات نہیں دیے جاتے، امن و امان ایک خواب ہی رہے گا۔ مولانا راشد محمود سومرو جیسے بےلاگ اور بہادر رہنما ہی سندھ جیسے محروم خطے کی حقیقی ضرورت ہیں۔