سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کی ذیلی کمیٹی کے حکم پر سی ای او اسٹیل مل اسد اسلام نے واٹر بورڈ کو ایک ہی روز میں این او سی جاری کرنے کی یقین دہانی کرا دی، جس کے بعد اسٹیل ٹاؤن اور گلشنِ حدید کے رہائشیوں کو پانی کی فراہمی ایک ہفتے میں شروع ہوجائے گی۔
کمشنر آفس کراچی میں سینیٹر خالدہ اطیب نے سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کی ذیلی کمیٹی کے اہم اجلاس کی صدارت کی۔ دیگر کمیٹی ممبران میں سینیٹر وقار مہدی، سینیٹر مسرور احسن اور سینیٹر حسنیٰ بانو شامل تھیں۔ اجلاس میں کمشنر کراچی سید حسن نقوی بھی موجود تھے۔ یک نکاتی ایجنڈا اجلاس کا مقصد اسٹیل مل کے مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔ سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ پانی نا ہونے کی وجہ سے گلشن حدید اور اسٹیل مل کی کالونیز چار مہینے سے سخت اذیت کا شکار ہیں، اس کیلئے کوئی متبادل سہولت دیں تاکہ اہلیانِ علاقہ کو پانی مل سکے۔ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ میئر کراچی نے پانی کا متبادل پراجیکٹ دیا تھا لیکن کے-الیکٹرک کی وجہ سے وہ آپریشنل نہیں ہو پارہا کیونکہ کے الیکٹرک نے اس کیلئے ایک بڑا بل بنا دیا ہے، کے ای سے درخواست کی گئی تھی کہ اس بل کو کم کریں اور فوری طور پر کنکشن کو بحال کردیں، اگر ادھر کوئی ٹرانسفارمر لگانا ہے یا کوئی سب اسٹیشن فعال کرنا ہے تو فوری تنصیب کردیں، اس کے چارجز سندھ حکومت بعد میں ادا کردے گی۔
چیف آپریٹنگ آفیسر واٹر بورڈ اسداللہ خان نے کہا کہ پانی کے جن عارضی کنکشن کی بات ہورہی ہے، وہ حدود اسٹیل مل کی ہے، ہمیں این او سی چاہیے کیونکہ درخواست گزار واٹر بورڈ ہے اور جس جگہ پر کنکشن لگنا ہے وہ اسٹیل مل کی جگہ ہے، فوری حل یہ ہے کہ سندھ حکومت کی ہدایت پر ہم نے پمپنگ اسٹیشن بنا دیا، ہم تین کلومیٹر طویل لائن لے کر آگئے، اب ہمیں ایک ریزروائر میں پانی بھیجنا ہے، اسٹیل مل نے اس کی لائٹ بند کی ہوئی ہے، عوام کی سہولت کیلئے سب سے پہلے اسٹیل مل اس کی بجلی بحال کردے، اس دوران کے الیکٹرک نے ہماری درخواست پر سروے کرلیا ہے، جب تک ان کو این او سی نہیں ملتا، کے ای نے ہم سے کہا کہ اسٹیل مل سے این او سی دلوا دے تو ہم وہاں پی ایم ٹی لگوا کر بجلی بحال کردیں گے۔
سی ای او اسٹیل مل اسد اسلام نے کہا کہ این او سی ہم آج ہی جاری کردیں گے جس پر کمیٹی چیئرپرسن سینیٹر خالدہ اطیب نے کہا کہ این او سی آج کی تاریخ میں جاری کرنے کے ساتھ ہی اس کی کاپی مجھے بھجوائی جائے، پانی بہت ضروری ہے، بنیادی ضرورت میں آتا ہے، یہ مسئلہ فوری حل کیا جائے۔ڈائریکٹر کےالیکٹرک نے کہا کہ سروے پہلے ہی ہوچکا ہے، ایک ٹرانسفامر آنا ہے، 11 کلوواٹ کی لائن جارہی ہے، اس سے ٹرانسفامر جوڑ دیا جائے گا۔ این او سی کے بعد ایک ہفتہ لگے گا ٹرانسفارمر آئے گا، کیبلنگ ہوگی۔ صوبائی محکمہ توانائی ہمیں ادائیگی کی یقین دہانی کرا دے تو ہم فی الفور کام کردیں گے۔
اسٹیل مل کی اراضی کو ناجائز قابضین سے واگزار کرانے کے معاملے پر سی ای او اسٹیل مل کا کہنا تھا کہ انہیں پولیس فورس کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان قابضین پر ایف آئی ار بھی ہونی چاہیے تاکہ ان کا کریمنل ریکارڈ بنے، اس کے بعد ان کے خلاف ٹھوس کارروائی ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ اینٹی انکروچمنٹ کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے جس میں ایڈیشنل سیکرٹری ہیں، میں ہوں، اگر ڈپٹی کمشنر ملیر ملاقات کیلئے آجائیں تو انہیں ناجائز قابضین کی تفصیلات بتا دی جائیں گی۔کمیٹی چیئرپرسن سینیٹر خالدہ اطیب نے کہا کہ اسٹیل مل کی اراضی پر کوئی ناجائز قبضہ کرلے تو اس پر فوری ایکشن ہونا چاہیے انہوں نے ڈپٹی کمشنر ملیر کو ہدایت دی کہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور قبضہ مافیا سے سرکاری اراضی واگزار کرائیں۔اس موقع پر سی ای او اسٹیل مل اسد اسلام نے کہا کہ اسٹیل مل کے پاس 1675 ایکڑ اراضی ہے جو غیر انتقال شدہ ہے، وہ ہمارے نام پر منتقل نہیں ہوئی تھی، اس پر وفاقی حکومت اور اسپیشل انوسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل نے فیصلہ کردیا تھا کہ یہ اسٹیل مل کی زمین ہے، آپ اسے اسٹیل مل کے نام پر منتقل کرکے ریکارڈ میں ٹھیک کردیں، ہمیں خطرہ ہے کہ اس زمین بھی قبضہ نا ہوجائے۔
سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ اس زمین کی دستاویزات ڈی سی ملیر سے اور کمیٹی سے شیئر کریں، انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی کہ آپ لینڈ ایکویزیشن کی تفصیلات نکالیں، 70 کی دہائی میں کتنی اراضی اسٹیل مل کو دی گئی تھی، کتنی اراضی پر اسٹیل مل بنی اور کتنی اراضی خالی ہے، یہ تمام تفصیلات ہم سے بھی شیئر کیجیے۔ایک موقع پر سینیٹر مسرور احسن نے اعتراض اٹھایا کہ اسٹیل مل میں فنانس کا بیک گراؤنڈ رکھنے والا کوئی عہدیدار نہیں ہے، ہر اجلاس میں ایک نیا عہدیدار مالی معاملات کی تفصیل دینے بیٹھا ہوتا ہے۔ سینیٹر وقار مہدی نے اسفتسار کیا کہ مل سے ہونے والی چوری کی وارداتوں کے بعد ریکوری کتنی ہوچکی ہے؟ ڈپٹی کمشنر ملیر نے بتایا کہ 2024 میں 9 ایف آئی آر ہوئے جس میں 5 میں ریکوری ہوئی 4 میں کوئی نہیں جبکہ 2025 میں 29 ایف آئی آر میں سے 24 میں کچھ نا کچھ ریکوری ہوئی ہے جبکہ 5 میں کوئی ریکوری نہیں ہوئی۔
چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر خالدہ اطیب نے استفسار کیا کہ اسٹیل مل میں 10 ارب کی چوری ہوئی تھی جس میں ایک ہی شخص ملزم تھا، اس میں کتنی ریکوری ہوئی؟ کیا اس ملزم کو گرفتار کیا گیا؟ اسٹیل مل کے سی ایف او نے جواب دیا کہ وہ کیس ایف آئی اے کے پاس ہے، کیس پیپلز یونین نے داخل کیا تھا۔ سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ کیس آپ لوگوں کو کرنا چاہیے تھا، مال اسٹیل مل کا چوری ہوا، آپ کو پتا ہوگا اس کی کتنی مالیت تھی۔
سینیٹر خالدہ اطیب نے سوئی گیس حکام کی طرف سے کسی نمائندے کی اجلاس میں شرکت نا کرنے کا سخت نوٹس لیا، انہوں نے کہا کہ کچھ ہفتے پہلے ہی گیس کی ایک بڑی تنصیب چوری ہوئی ہے اور سوئی گیس سے کسی نے اجلاس میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔سینیٹر وقار مہدی نے سیکیورٹی افسر سے استفسار کیا کہ ایک ہی جگہ سے دس دفعہ چوری ہوئی، آپ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے ہدایت دی کہ اسٹیل مل کا مکمل سیکیورٹی آڈٹ کروایا جائے، بار بار چوری کی وارداتیں روکنے کیلئے سیکیورٹی خامی کا معلوم ہونا ضروری ہے، اسٹیل مل وفاقی ادارہ ہے، اگر اس کی حفاظت مشکل کام ہے تو ایف سی سے بات کرکے سیکیورٹی لے لیجیے۔
اجلاس میں مختلف ورکرز یونین کے عہدیداران نے دیگر مسائل بتاتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ٹاؤن میں ایک سال سے گیس، چار مہینے سے پانی بند ہے۔ ملازمت سے نکالے گئے افراد کو ان کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی گئی، بجلی کے تین ہزار کے بل پر مختلف ٹیکسز لگا کر 72 ہزار روپے بھیجا جارہا ہے۔ کرایہ 805 روپے سے بڑھا کر 17 ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ ہمیں نوکری سے نکالا گیا، کیس عدالت میں ہے۔ اپیلیٹ کورٹ نے حکم دیا کہ جب تک آپ ان کو واجبات ادا نہیں کرتے تب تک ان کو ملازم تصور کیا جائے، ان کو تنخواہ جاری کی جائے، دونوں کام نہیں ہوئے۔ اسٹیل مل نے ہائیکورٹ سے اسٹے لے لیا۔ جن لوگوں کو واجبات ادا نہیں ہوتے تب تک ہمارے کرائے اور بل مناسب ہونے چاہئیں۔ واجبات ادا ہوجائیں گے تو ہم مکان بھی ان کے حوالےکرکے چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ نا ملنے کی وجہ سے محنت کشوں کے بچے کچرا چننے پر مجبور ہیں، فیس کی ادائیگی نا کرنے کی وجہ سے بچوں کو اسکولوں سے نکال دیا گیا، آپ ہمیں نکالنا چاہتے ہیں تو گولڈن ہینڈشیک دیں۔








