سٹیم سیل تھراپی ( آٹزم کے علاج میں امید کی ایک کرن) —- خطیب احمد

0
64

سائنسدان جہاں حضرت انسان کو ملٹی پلانیٹری بنانے پر دن رات کام کر رہے ہیں۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ سنہ دو ہزار پچاس میں 2 ارب چالیس کروڑ روپے میں ایک کپل سیارہ مارس پر اپنی رہائش کا بندوبست کر پائے گا۔ دو ہزار ساٹھ تک تین لاکھ لوگ مارس پر رہائش پذیر ہو چکے ہونگے۔ مکانات کے بعد سبزیاں اگا کر یونیورسٹی اور ہسپتال بننا شروع ہوچکے ہونگے۔ اور ایمازون مارس پر زمین سے ڈاک و دیگر پراڈکٹس ڈیلیور کرنے کی خدمت راکٹس کے ذریعے سر انجام دے گا۔

وہیں انسانوں کو بیماریوں سے بچانے اور بڑی سی بڑی بیماری کو چند لمحوں یا گھنٹوں میں ٹھیک کرنے پر بھی دنیا بھر کے سائنسدان کام کررہے ہیں۔ تقریباً سو بیماریوں کے علاج کو سٹیم سیل تھراپی سے جوڑا جا رہا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے اس طریقہ علاج سے ہڈیوں کے کینسر bone marrow کا علاج سنہ 1957 میں اس طریقہ علاج کے موجد ای ڈونل تھامس E.Donnall Thomas نے کیا۔ جنہیں 1970 میں فلسفہ اور طب کی فیلڈ میں خدمات پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔

سٹیم سیل کیا ہے؟ پہلے یہ دیکھتے ہیں۔

قدرتی یا مصنوعی (ivf) طریقے سے انسانی نطفے (سپرم) اور بیضے (ایگ) کے ملاپ سے جو زائیگوٹ وجود میں آتا ہے۔ وہ انسانی وجود کی ایک بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ زائیگوٹ بھی ایک سٹیم سیل ہے جو مزید سٹیم سیلز بنا دیتا ہے) زائیگوٹ کے سٹیم سیل کے کردار کو آپ ایسے سمجھ سکتے کہ جب زایئگوٹ تقسیم ہونے کے دوران الگ ہو جائے تو دونوں زائیگوٹ الگ مکمل جاندار بنا دیتے ہیں۔ جنہیں جڑواں کہا جاتا ہے۔ جو ہوبہو ایک دوسرے کی کاپی ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ساخت میں ایک سٹیم سیل ہوتا ہے جس میں 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ 23 باپ کی طرف سے اور 23 ماں کی طرف سے۔ اس ذائیگوٹ کو مشکل سے ہی انسانی آنکھ سے دیکھ سکتی ہے۔

یہ ذائیگوٹ بڑی تیزی سے ایک سے دو ، دو سے چار اور چار سے آٹھ سیلز میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے بغیر تقسیم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس تقسیم کے عمل کو مٹوسس mitosis کہا جاتا ہے۔ اس تقسیم ہوتے ذائیگوٹ سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک سیل نکال کر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ جسے سٹیم سیل کہتے ہیں۔ یہ سٹیم سیل کی پہلی اور سب سے زیادہ اہم قسم ہے۔

یہ والا سٹیم سیل ہمارے جسم کا کوئی بھی حصہ وہ گوشت یا پٹھے ہوں دل ہو ہڈیاں ہوں مسلز یعنی پٹھے ہوں بال ہوں خون ہو جسم کا کوئی بھی حصہ خراب ہوجانے یا کٹ جانے پر دوبارہ بنانے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔

پانچ دن کے بعد یہ زائیگوٹ فلاپیئن ٹیوب سے ماں کے رحم میں سرکنا شروع کرتا ہے۔ اور بلاسٹو سسٹ Blastocyst کی شکل اختیار کرتا ہے۔ بلاسٹو سسٹ دو ہفتوں کے بعد ایمبریو میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھر اس ایمبریو سے بھی سٹیم سیل نکالا جاتا ہے۔ جسے ایمبریونک سٹیم سیل کہتے ہیں۔ یہ سیل بھی بہت زیادہ سیل بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ ذائیگوٹک سٹیم سیل کی طرح جسم کا ہر حصہ دوبارہ بنانے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ سٹیم سیل کی دوسری قسم ہے۔

اس ایمبریو کے گرد پیاز کے چھلکے جیسی اسکن کی ایک باریک تہہ بننا شروع ہوتی ہے۔ اور یہ ایمبریو پلاسینٹا (خوراک و آکسیجن کی نالی) سے جڑ جاتا ہے۔ باریک تہہ کے اندر ایک لیس دار پانی جسے لائیکر یا Amniotic fluid کہتے ہیں بننا شروع ہوتا ہے۔ یہ پانی کوئی عام پانی نہیں ہوتا. اس میں بھی لاکھوں سٹیم سیل ہوتے ہیں. جنہیں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نکالا جاتا ہے۔
یہ سٹیم سیل کی تیسری قسم ہے۔

اسکے بعد جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ تو بچے کے ساتھ ہی پلاسینٹا ماں کے رحم سے باہر آتا ہے۔ اس نالی میں بھی خون کی کچھ مقدار ہوتی ہے۔ جسے بلڈ کارڈ یا کارڈ بلڈ کہتے ہیں۔ اس کارڈ بلڈ میں بھی لاکھوں سٹیم سیل ہوتے ہیں جنہیں پہچان کر اس خون سے نکال لیا جاتا ہے۔ یہ سٹیم سیل کی چوتھی قسم ہے۔

اسکے علاوہ کسی بھی عمر کے انسانی جسم کے کسی بھی حصے، گوشت اور عموماً کولہے کی ہڈیوں میں سے اس فرد اپنے سٹیم سیلز بھی تلاش کرکے نکالے جاتے ہیں۔ سٹیم سیلز عام سیلز سے رنگ و ساخت میں مختلف ہوتے ہیں۔ یہ سٹیم سیلز کی اب تک کی دریافت شدہ پانچویں اور آخری قسم ہے۔

ذائیگوٹک، ایمبریونک، ایمنیوٹک فلیوڈ سے نکالے گئے سٹیم سیل پر مذہبی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو تحفظات ہیں۔ کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ اسلامی، عیسائی، یہودی اور بھی کئی مذہبی حلقے شروع سے پہلی دو اقسام کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ کہ جس ذائیگوٹ یا ایمبریو سے یہ لیے جائیں گے اسے بھی کوئی خطرہ پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اور یہ قانون فطرت میں چھیڑ چھاڑ تصور ہوتی ہے۔ جو جائز نہیں۔ خیر یہ ایک اور لامتناہی بحث ہے۔ سائنسدان اب ماں کے پیٹ سے باہر مصنوعی طریقے سے بنائے گئے ذائیگوٹ جس میں نطفہ اور بیضہ انسانی ہی ہوتا ہے۔ پہلے دونوں سٹیم سیل نکال رہے ہیں۔ وہ اب حاملہ ماں کے رحم سے کوئی سیل نہیں نکالتے۔

کارڈ بلڈ اور انسان کے اپنے سٹیم سیلز پر کسی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں انہی دونوں اقسام کا استعمال مسلمان حلقوں عام ہوا ہے۔ جو پاکستان میں بھی پانچ سال قبل شروع ہو چکا ہے۔

سٹیم سیل اپنے اندر مزید سیلز بنانے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور بیماری کی تشخیص نوعیت لیول کا تعین ہونے کے بعد ڈاکٹر دیکھتا ہے۔ کہ سٹیم سیل کی کونسی قسم اسکا بہتر علاج ہو سکتی ہے۔ پھر سٹیم سیل کو خون میں جدید مشینری کے ذریعے شامل کرکے متاثرہ جگہ پر انجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ دل کے امراض، نابینا پن کا علاج، مرگی، آٹزم، جگر کے مردہ سیلز کو زندہ کرنا، ہڈیوں کا کینسر، کمر کے مسلز کا کچلا جانا جسکی وجہ سے نچلا دھڑ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ منیبہ مزاری اس نچلے دھڑ کے ناکارہ ہونے کی ایک مشہور مثال ہے۔

اور بھی کئی بیماریوں اور معذوریوں کو سٹیم سیل سے ٹھیک کرنے کے دنیا بھر میں ہزاروں کامیاب تجربے ہوچکے ہیں۔ ہزاروں لوگ جزوی و مکمل بینائی حاصل کر چکے ہیں۔ اور کئی لوگ حادثوں کی وجہ سے ویل چیئر پر چلے جانے کے بعد دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ بلکہ اب تو سٹیم سیل سے نئی ہڈیاں اور اسکن سیلز بنانے کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ بری طرح ٹوٹی ہوئی جڑنے کے ناقابل اور ناکارہ ہڈیوں کو جسم سے باہر بنائی گئی بلکل قدرتی ہڈی سے بدلہ جاسکے گا۔ آنکھ کے قارنیہ تو ہزاروں لوگوں کے ری پلیس کیے جا چکے ہیں۔ جس سے انکی بینائی لوٹ آئی ہے۔ جسم کے جلنے والے حصے کو اسی انسان کے سٹیم سیلز لیکر نئی جلد اگا کر جسم کے ساتھ جوڑی جا سکے گی۔ پلاسٹک سرجری کی جگہ حقیقی جلد لینے کے بلکل قریب ہے۔

میرا موضوع آٹزم ہے تو اس مرض کے علاج میں اب تک کا سب سے موثر ترین علاج سٹیم سیل تھراپی ہی ہے۔ جسکے دنیا بھر میں نتائج بڑے حوصلہ افزا رہے ہیں۔ جسم کے وہ سیلز جو خراب ہوتے ہیں۔ جنکی وجہ سے آٹزم کا شکار بچوں میں مختلف مسائل پائے جاتے ہیں۔ ان سیلز کو سٹیم سیلز سے بدل دیا جاتا ہے۔ خراب سیلز کے ساتھ سٹیم سیلز جڑ کر نئے اور تندرست سیلز بغیر کسی بھی فالٹ کے بنانا شروع کرتے ہیں۔ اور نئے تندرست سیلز کی بتدریج بڑھتی ہوئی تعداد پرانے خراب، ڈیمج سیلز پر غالب ہو کر بیماری کے اثر کو کم کرنا شروع کر دیتے ییں۔

سٹیم سیلز تھراپی کراچی اور اسلام آباد میں کامیابی سے کی جارہی ہے۔ علاج زیادہ مہنگا نہیں ہے۔ پیسے جتنے بھی لگیں جب بچہ ٹھیک ہونے لگے تو پیسے بھول جائیں گے۔ کچھ دھوکے باز ڈاکٹرز مختلف شہروں میں پی آر پی PRP کو ہی سٹیم سیل تھراپی بتا کر سادہ لوح لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ سٹیم سیل تھراپی میں استعمال ہونے والی مشینیں بہت مہنگی ہیں جو ہر کوئی نہیں خرید سکتا۔ (پی آر پی کیا ہے یہ کسی اور دن سہی۔ یا ابھی خود سرچ کر لیں)

آٹزم سوسائٹی آف پاکستان کے مطابق اس وقت تین لاکھ پچاس ہزار 350٫000 بچے آٹزم کا شکار ہیں۔ ان بچوں کے لیے یہ ایک گیم چینجر طریقہ علاج ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ پاکستان کی تقریباً تمام بڑی یونیورسٹیاں سٹیم سیل پر تحقیق کر رہی ہیں۔ مستقبل قریب میں یہ طریقہ علاج ہر بیماری کے لیے استعمال ہوگا۔

(مصنف کی زیر تصنیف کتاب "میں مختلف ہوں” سے اقتباس)

Leave a reply