چین میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کا جگر انسان میں ٹرانسپلانٹ — مریض 171 دن زندہ رہا، طبی تاریخ میں سنگ میل
چین کے معالجین نے طب کی دنیا میں ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا ہے۔ چینی ڈاکٹروں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے 71 سالہ مریض کے جسم میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کا جگر ٹرانسپلانٹ کیا، جس کے بعد مریض 171 دن زندہ رہا۔ ان میں سے 38 دن اس نے خنزیر کے جگر کے ساتھ گزارے۔ یہ واقعہ طبی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جو کسی مستند تحقیقی جرنل Journal of Hepatology میں شائع ہوا ہے۔
یہ جگر 11 ماہ کے ایک کلون خنزیر سے حاصل کیا گیا تھا، جس کے جینز میں 10 اہم تبدیلیاں کی گئی تھیں تاکہ انسانی جسم میں اس کے ردِ عمل یا انفیکشن کے امکانات کم کیے جا سکیں۔ یہ آپریشن چین کے شہر ہفے میں موجود First Affiliated Hospital of Anhui Medical University میں کیا گیا، جس کی سربراہی ڈاکٹر بائی چنگ سُن کر رہے تھے۔ڈاکٹر سن کے مطابق لوگ ہمیشہ کہتے تھے کہ جگر بہت پیچیدہ ہے اور اسے خنزیر سے انسان میں منتقل کرنا ممکن نہیں، لیکن اس تجربے نے ثابت کیا ہے کہ مستقبل میں یہ ممکن ہو سکتا ہے، اگر خنزیر میں کافی انسانی جینز شامل کیے جائیں۔
مریض کو ہیپاٹائٹس بی سے متعلق جگر کے نقص اور جگر کے دائیں حصے میں بڑے رسولی کا سامنا تھا۔ کیموتھراپی سے رسولی کم نہ ہو سکی اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ وہ پھٹ سکتی ہے۔ چونکہ کوئی انسانی ڈونر دستیاب نہیں تھا، اس لیے ڈاکٹروں نے خنزیر کے جگر کا آپشن آزمایا۔ مریض اور اس کی بیٹی نے مشاورت کے بعد رضامندی ظاہر کی۔سرجنز نے رسولی نکالنے کے بعد خنزیر کا جگر مریض کے جسم میں پیوند کیا۔ آپریشن کے فوراً بعد خنزیر کا جگر سرخ رنگ میں فعال نظر آیا اور بائل (پت) کا اخراج شروع ہوگیا، جو آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ پہلے ہی دن جگر کے افعال کے اشارے بہتر ہو گئے، اور کوئی ابتدائی سوزش یا ردعمل ظاہر نہیں ہوا۔دسویں دن تک مریض کے جسم نے کوئی منفی ردعمل نہیں دکھایا۔ الٹراساؤنڈ سے ثابت ہوا کہ خون کی روانی پورٹل وین، ہیپاٹک آرٹری اور وین نارمل طور پر چل رہی تھی۔
تاہم، 25 ویں دن سے مریض کے دل پر دباؤ کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اگلے چند دنوں میں سوزش بڑھی اور ٹیسٹوں نے ظاہر کیا کہ مریض کو پیچیدگی لاحق ہو رہی ہے، جس میں چھوٹی خون کی نالیوں میں خون کے چھوٹے لوتھڑے بننے لگتے ہیں۔37 ویں دن مریض کا بلڈ پریشر اچانک گر گیا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے اندازہ لگایا کہ اب مریض کا اپنا جگر کافی حد تک بحال ہو چکا ہے، لہٰذا 38 ویں دن خنزیر کا جگر نکال دیا گیا۔ اس کے بعد مریض کا اپنا جگر بہتر طریقے سے کام کرتا رہا۔آپریشن کے 135 ویں دن مریض کو معدے میں خون بہنے کی شکایت ہوئی اور آخرکار 171 دن بعد وہ انتقال کر گیا۔
اس تحقیق نے سائنسدانوں کو خنزیر سے انسان میں جگر منتقل کرنے کے عمل کی ممکنات، خطرات اور حدود کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔ ماہرین کے مطابق، مستقبل میں یہ ٹیکنالوجی ان مریضوں کے لیے عارضی حل بن سکتی ہے جن کے جگر ناکارہ ہو چکے ہیں مگر وہ انسانی ڈونر کا انتظار کر رہے ہیں۔جرمنی کی Hannover Medical School کے پروفیسر ڈاکٹر ہائنر ویڈمائر نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہایہ تجربہ ایک طرف محتاط امید کا پیغام دیتا ہے، تو دوسری طرف یہ یاد دہانی بھی ہے کہ ہمیں ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔ اگر مستقبل میں خنزیر کا جگر کچھ ہفتوں کے لیے مریض کے جسم کو سہارا دے سکے، تو یہ علاج میں ایک انقلابی قدم ثابت ہوگا۔
امریکا میں اس وقت ایک لاکھ سے زائد افراد اعضا کی پیوندکاری کے منتظر ہیں، جن میں سے 9 ہزار سے زیادہ صرف جگر کے منتظر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خنزیر کے جین-ایڈیٹڈ اعضا مستقبل میں انسانی اعضا کی کمی کو پورا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے حیاتیاتی ردعمل کو مکمل طور پر قابو میں لایا جا سکے۔ڈاکٹر سن نے کہا ہمیں ایسے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کا احترام کرنا چاہیے جو سائنس کے لیے اپنی زندگی قربان کرتے ہیں۔ انہی کی قربانیوں سے انسانیت کو نئے علاج کے دروازے کھلتے ہیں۔