سفید پوشی, خود داری اور یہ مجبوریاں ..تحریر: ریحانہ بی بی (جدون)

0
69

خود داری بہترین انسانی صفت ہے اور آج تک خوددار انسان کبھی ناکام نہیں ہوا.
ہر انسان خود دار رہنا پسند کرتا ہے اور اپنی خودداری پہ کبھی سمجھوتہ کرنا نہیں چاہتا. مگر بعض اوقات اُسے ایسی مجبوریاں جکڑ لیتی ہیں جو اسکی خودداری کو جھکنے پر مجبور کردیتیں ہیں.
آپ نے کبھی ایسے مجبور باپ کو دیکھا ہوگا جو اپنی اولاد کے لئے دن رات محنت کرتا ہے اسے طرح طرح کی مصیبتیں جھیلنی پڑتیں ہیں اور کئی لوگوں کی ڈانٹ اور گالیاں بھی سننی پڑتی ہیں. اسکے باوجود وہ اپنی محنت سے کام کرتا ہے کیونکہ اس نے اپنا گھر چلانا ہوتا ہے. اپنے بچے پالنے ہوتے ہیں.
ایک ریڑھی والے کو جب 1500 کا چالان تھما دیا جاتا ہے تو اسکی حالت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو خود مزدور ہو,
مگر جیسے تیسے کرکے اس نے چالان بھی بھرنا ہوتا ہے چاہے اسکے لئے اسے خود بھوکا سونا پڑ جائے…
باپ جو اپنے بچوں کے لئے کسی ہیرو سے کم نہیں ہوتا وہ اپنے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں دیکھنے کے لئے اپنا آپ بھول جاتا ہے. اس کے لئے اپنی صحت اپنی ہمت معنی نہیں رکھتی وہ اپنے آپ کو کمزور کرتا ہے تاکہ اُسکی اولاد کسی قابل بن سکے.
وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے دکھ اپنے چہرے سے ظاہر نہ دے کیونکہ وہ اپنی اولاد کو ہر وہ خوشی دینا چاہتا ہے جو اسکے اختیار میں ہوتی.
اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ اسکو اپنی خود داری کو دفن کرنا پڑتا جاتا ہے. اسے کئی طرح کے طعنے سننے پڑتے ہیں مگر اُسے سب برداشت کرنا پڑتا ہے.

اللہ کا قانون ہے کسی کو آسائشیں دے کے آزماتا ہے تو کسی کو ان آسائشوں سے محروم رکھ کے آزماتا ہے.
اچھا اور برا وقت ہر کسی پہ آتا ہے اچھے وقت میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور بُرے وقت میں صبر. اور صبر اور شکر دونوں اللہ کو بہت پسند ہے.
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اندھیرے میں اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے مطلب کے بُرے وقت میں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا.. مگر بُرا وقت اچھے برے اور اپنے پرائے کی تمیز ضرور کرا دیتا ہے.
بُرے وقت میں اگر ہم کسی کو کچھ دے نہیں سکتے مگر تسلی کے دو بول تو دے سکتے ہیں اسکے ساتھ کھڑے رہ کر اسے حوصلہ تو دے سکتے ہیں.
آج اس دور میں غمِ روزگار نے سب کو پریشان کر رکھا ہے. ایک طرح سے اپنے رشتے داروں سے بھی دور کردیا ہے. اور یہ انکی مجبوری بھی ہے
انسان جب کسی کو کسی تکلیف میں دیکھتا ہے تو کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ اسکی تکلیف دور کرسکے.
میں جب کسی کو سڑک پہ ٹھیلہ لگائے دھوپ میں کھڑا ٹھنڈا شربت پی لو… کی آوازیں لگاتے دیکھتی ہوں یا کوئی اپنے کندھے پہ کسی کا سامان لادے اسکے پیچھے چلتا ہوا دیکھتی ہوں تو سوچنے پہ مجبور ہوجاتی ہوں کہ مالک انکی آزمائش واقعی کٹھن ہے.
میرا جانا راولپنڈی کے ایک مشہور اسپتال ہوا
وہاں میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو لگ بھگ 70 سال کے تھے.
بہت تکلیف میں تھے پر انکے ساتھ کوئی نہیں تھا.
مجھ سے رہا نہیں گیا میں اُن کے پاس چلی گئی, پوچھا بابا جی کیا ہوا ہے آپکو..
تو کانپتے ہاتھ سے اشارہ کِیا کہ سینے میں درد ہے.
میں ڈاکٹر کو بُلا کے لائی, ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد کچھ ٹیسٹ لکھے اور نرس کو انجکشن لگانے کی ہدایت کرکے چلا گیا
دل میں طرح طرح سوال تھے کہ انکے ساتھ کوئی کیوں نہیں, یہ کون ہیں کہاں کے ہیں وغیرہ
میں اسی سوچ میں تھی کہ اُن بزرگ نے مجھے آواز دی
بیٹی آپکے بیٹے کو کیا ہوا ہے ؟
میں نے انھیں بتایا کہ اسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو چیک کروانے آئی ہوں. اب رپورٹس کا انتظار کررہی ہوں..
میں نے پوچھا : بابا جی آپ کہاں سے آئے ہیں؟
تو بولے میں چکوال سے ہوں.
آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے ؟؟ میں نے پھر سوال کیا.
تو اُنکی آنکھوں میں آ نسو آ گئے, بولے میرے ساتھ بس میرا اللہ ہے.
جوان بیٹا ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہوگیا اب اسکے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں, انکے لئے میں یہاں آیا ہوں مزدوری کرنے..
میں نے پوچھا بابا جی کیا کام کرتے ہیں ؟
تو بولے ریڑھے پہ سامان لاد کے لے جاتا ہوں اور ایک پھیرے کا 30 روپے مل جاتے ہیں, کبھی کبھی طبیعت خراب ہوتی ہے تو لوگوں کی گالیاں بھی سنتا ہوں کیونکہ انکو کام چاہیے ہوتا ہے.
جیسے جیسے وہ بتا رہے تھے میرے لئے کسی دکھ سے کم نہ تھا کہ وہ اس حالت میں, اس عمر میں مزدوری کررہے کیونکہ انکا سہارا کوئی نہیں اور اب بھی وہ کسی کا سہارا بنے ہوئے ہیں
میں نے بابا جی کو تسلی دی کہ اللہ پاک آپ کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور کچھ مدد کرنی چاہی پر بابا جی نے میرا ہاتھ روک دیا کہ میری بیٹی ہوتی تو آج وہ تمھاری عمر کی ہوتی اور باپ بیٹیوں سے پیسے نہیں لیتے.
میں نے جب اصرار کیا تو کہنے لگے پتر مینوں شرمندہ نہ کر.
کتنی خودداری تھی انکی آواز میں کہ میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کردیا.
بابا جی کی آنکھوں میں آنسو تھے پھر آنکھیں بند کردی
اور دھیمی آواز میں کہنے لگے اللہ تمھیں اپنے بچے کی خوشیاں نصیب کرے. بچوں کو اللہ ماں باپ کے لئے زندہ رکھے. اللہ تمھارے بچے کو زندگی دے..
پتا نہیں کیوں میری آنکھیں بھیگنے لگیں
میں دل سے دعا کررہی تھی کہ اے اللہ مجھے اتنی طاقت دے کہ میں لوگوں کی زندگی سے انکی تکلیفیں دور کرسکوں کسی کی آنکھوں میں آنسو آ نے نہ دوں اور نہ کبھی کسی کی آنکھ میں آنسو آنے کی وجہ بن سکوں.
آمین

@Rehna_7

Leave a reply