شوگر مافیاز اور ہمارا غریب کسان بقلم :محمد راحیل معاویہ

0
32

"شوگر مافیاز اور ہمارا غریب کسان”

بقلم :محمد راحیل معاویہ

ہمارا ملک عزیز پاکستان ایک زرعی ملک ہے، 60 فیصد سے زائد لوگ زراعت پیشہ سے منسلک ہیں،ہر حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر زراعت کے متعلقہ مسائل حل کرنے چاہئیں کیونکہ یہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ہمارا کسان اپنے مسائل کے لیے چیختا ہے مگر کوئی نہیں سنتا،سڑکوں پر نکلتا ہے تو تشدد کیا جاتا ہے، سارا سال محنت مشقت کرکے اپنے خون پسینے سے اگائی فصل بیچتا ہے تو اس کو اونے پونے خریدنے کے لیے بڑے بڑے مگر مچھ پہلے سے تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں۔

فصل اگانے میں بھی اس کو بے شمار مسائل کو سامنا ہے جن پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ حال ہی میں گنا کی فصل تیار ہوئی ہے، سرکاری ریٹ 200 روپے من مقرر کیا گیا ہے، اس ریٹ پر کسان گنا دینے سے انکاری ہیں جبکہ شوگر ملز مالکان حکومت سے درخواستیں کررہے ہیں کہ اس نرخ پر گنا دینے پر کسان کو پابند کیا جائے۔

2018 میں سرکاری نرخ پر گنا 190 روپے من خریدا گیا اور چینی کی قیمت 53 روپے کلو تھی مگر اس کے بعد شوگر ملز مالکان نے چینی کی قیمتیں بڑھانا شروع کردیں، وزیراعظم عمران خان صاحب نے کامران خان کے پروگرام میں کہا کہ پنجاب حکومت کو بلیک میل کرکے 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی گئی۔ مگر اس کے بعد چینی کی قیمتوں میں 2018 سے 2019 تک 10 سے 12 روپے کلو تک اضافہ ہوا، اور پھر 2019 سے 2020 تک 55 روپے کلو والی چینی80روپے کلو تک پہنچ گئی۔

کسان سے 190 روپے روپے من گنا خرید کر، پنجاب حکومت سے 3 ارب روپے سبسڈی لے کر بھی چینی کی قیمت میں 20 سے 25 روپے کلو تک اضافہ کردیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے اس کا نوٹس لیا اور کمیٹی قائم کردی۔ اس کے بعد 5 ماہ میں چینی کی قیمت پھر بھی قابو میں نا رکھی جاسکی اور 5 ماہ میں چینی 110 روپے کلو تک پہنچ گئی جو کہ اب 115 روپے کلو تک بھی فروخت ہورہی ہے۔
2 سالوں میں 55 روپے کلو سے 110 روپے کلو پر چینی پہنچ چکی ہے۔ شوگر انکوائری رپورٹ میں یہ تخمینہ لگایا گیا کہ اگر گنا سرکاری ریٹ 190 روپے من خریدا گیا تھا تو چینی کی قیمت 57 روپے کلو بنتی ہے۔

مگر شوگر ملز مالکان نے کہا کہ ہم نے گنا 190 روپے من سے زائد قیمت پر خریدا ہے جس پر شوگر کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر شوگر ملز مالکان کی بات مان کر تسلیم کرلیا جائے کہ گنا 190 روپے من نہیں خریدا تو اگر 215 روپے من بھی خریدا گیا ہو تو چینی کی قیمت 63 روپے کلو بنتی ہے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ شوگر ملز مالکان آج 1 سال بعد بھی گنا 215 روپے من خریدنے پر تیار نہیں ہیں۔

گذشتہ برس 190 روپے من گنا خرید کر سارا سال دوگنی قیمت پر چینی فروخت کرتے رہے جس کے عوض شوگر ملز مالکان نے عوام کی جیب سے 180 ارب روپے کی خطیر اضافی رقم نکلوائی۔

آج جب غریب کسان کا گنا تیار ہوگیا ہے تو شوگر ملز مالکان نے حکومت کو ملز بند کرنے کی دھمکی دے کر یہ کہا ہے کہ کسان کو 200 روپے من گنا بیچنے پر مجبور کیا جائے۔

سینکڑوں ارب روپے کمانے کے بعد بھی بیچارے کسان کا خون چوسنے سے گریز نہیں کیا جارہا۔ کسان عموما مجبور ہوتا ہے اس کے پاس وقت اور اضافی پیسے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ اپنی فصل ایسے مافیاز کے آگے فورا بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بعض کسانوں نے تو ایسے لوگوں سے ادھار رقم لے کر اپنی فصل کاشت کی ہوتی ہے، فصل تیار ہوتے ہی وہ ان کی جھولی میں ڈال دیتا ہے، جب کہ خود اس کو خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔

اس صورت حال میں کسان کی آواز نا ان کے منتخب کردہ نمائیندے بنتے ہیں اور نا حکومت ان کی دادرسی کرتی ہے۔ جب 190 روپے من گنا تھا تب چینی 55 روپے کلو تھی، آج چینی 110 روپے کلو ہے جبکہ گنے کی قیمت 200 روپے من قرار پائی ہےاس ناانصافی سے بددل ہوکر اکثر کسان فصل کاشت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

اس سال 20 سے 25 فیصد کپاس 10 فیصد گندم اور 7فیصد چینی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث کپاس بھی اس سال ہمیں باہر سے منگوانی پڑے گی، جبکہ 25 لاکھ ٹن گندم اور 5 لاکھ ٹن چینی امپورٹ کرنی پڑے گی۔ اس کی وجہ سے امپورٹ میں اضافہ ہوگا جس کا ہماری ملکی معیشت کو بہت نقصان ہوگا۔ ہماری جی ڈی پی گروتھ پہلے ہی منفی 0.4 تک گرچکی ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئیندہ مالی سال میں بھی 1.5 سے 2.5 تک شرح نمو رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے، جبکہ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں آئیندہ مالی سال میں شرح نمو محض 1 فیصد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

اپنے ملک کے کسان کو گندم کے 1400 روپے من ادا کرنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے،جبکہ وہی گندم اب باہر سے 2000 روپے من سے بھی زائد قیمت پر منگوا کر خوشیوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔

ملک کی معاشی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ کسان کو خوشحال کیا جائے، اس کے ساتھ بدسلوکیوں کا سلسلہ بند کیا جائے، اور اس کی محنت کا اس کو ہنسی خوشی ثمر دیا جائے۔تاکہ وہ سڑکوں پر آکر لاٹھی چارج کھانے کی بجائے اپنے گھر میں سکون سے عزت کی روٹی کھائے، اور دن رات محنت کرکے پورے ملک کو اناج تیار کرکے کھلائے۔

محمد راحیل معاویہ نارووال

Leave a reply