سناؤ کیہہ خبراں نیں. تحریر: نوید شیخ

وطن عزیز میں موضوعات کی کوئی کمی نہیں ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ اب تو یہ ہماری تفریح بن چکی ہے جو ملتا ہے پوچھتا ہے۔ ”سناؤ کیہہ خبراں نیں“

۔ پر خبریں اچھی نہیں ہیں ۔ پاکستان اس وقت چاروں جانب سے مشکلات میں گھیرا دیکھائی دیتا ہے ۔ سیاست سے معیشت ، معیشت سے خارجہ محاذ اور حارجہ محاذ سے انصاف کی فراہمی تک پریشانیاں ہی پریشانیاں نظر آرہی ہیں ۔ ۔ عاصمہ جہانگیر پر ہونے والے کانفرنس اور وہاں ہونے والی باتوں سے حکومت اتنا ڈر گئی ہے کہ اب اس کو فنڈنگ کہاں سے آئی ۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کو استعمال کرنے اور اسٹیٹ بینک کو کہاگیا ہے کہ پیسوں کے sourceکا پتہ لگا لیں ۔ اچھی بات ہے ہونا چاہیئے ۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ عاصمہ جہانگیر پر اس ایونٹ کے کروانے والے منتظمین کو آگے آکر سب کچھ خود ہی حقائق سامنے رکھ دینے چاہیں ۔ اور حکومت کو بھی چاہیے کہ پی ٹی آئی پر جو فارن فنڈنگ کیس چل رہا ہے ۔ وہ فنڈنگ کہاں سے اور کس مد میں ملی یہ الیکشن کمیشن سمیت ملک وقوم کوبتا دینا چاہیئے ۔ ۔ یہ جو مانگے تانگے کے وزیر روز کوئی نہ کوئی شدنی چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس نے پی ٹی آئی سمیت پورے ملک کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ ہر کسی کو غدار ہونے تمغے بنٹتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ خود سب سے بڑے لوٹے ہیں ۔ انھوں نے اتنی پارٹیاں بدل لی ہیں شاید اتنے غریبوں نے کپڑے نہیں بدلے ہوں گے ۔

۔ کون ہے جس کو یہ معلوم نہیں کہ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف پاکستان پر پابندیاں لگانا چاہتے ہیں۔کسی سے یہ چیز ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے خلاف داخلی و خارجی سطح پر سازشیں ہو رہی ہیں۔۔ چند روز قبل امریکہ نے مذہب و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ممالک کی نئی فہرست جاری کی ہے۔اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل کیا گیا جبکہ کئی گنا انتہا پسندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب بھارت کو اس کا حصہ نہیں بنایا گیا۔۔ پر یہ تو ہو گا ہی کیونکہ آپ کو یاد ہو تو کئی روز پہلے جب وفاقی وزیر اطلاعات خود میڈیا پر آکر کہہ رہا ہو کہ ریاست اور حکومت شدت پسندی کے خلاف اتنی تیار نہیں ہے جتنا انہیں ہونا چاہیے۔ تو پاکستان دشمنوں کو تو ہلا شیری ملے گی ۔ اب پتہ نہیں ان کا یہ کلپ کہاں سے کہاں پہنچا ہوگا ۔بھگتیں گے پاکستانی عوام ۔۔۔ ۔ یاد رکھیں قومیں لوٹوں سے نہیں بنا کرتیں، منافق اور بددیانت لوگ قوموں کی تشکیل نہیں کر سکتے۔

۔ پھر ایک اور بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے۔ جس نے عوام کو ٹی وی سکرینوں کے ساتھ چپکایا ہوا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے مقدمے سے لے کر آج تک بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان دنوں اس سوال نے شدت اختیار کر لی ہے کیونکہ متواتر تین ایسے واقعات ہوئے ہیں پہلا سابق جج جسٹس شمیم رانا کا بیان حلفی ۔ پھر عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کھل کر ملک کے نامور لوگوں کی جانب سے اس بات کا اظہار کہ پاکستان میں انصاف نہیں ہوتا ۔ پھر کل رات سے جو ثاقب نثار کی لیک آڈیو کلپ وائرل ہوا ہے ۔ اس نے پورے ملک میں بھونچال برپا کیا ہوا ہے ۔ ۔ اس سے ہٹ کر کہ یہ آڈیو صحیح ہے یا غلط ہے ۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ یہاں سیاہ کو سفید کہا جا سکتا ہے۔ اکثریت کو بلڈوز کر کے اپنی مرضی کے نتائج نہیں لائے جاسکتے ہیں۔ کون ہے جو اس سے انکار کر سکے کہ اس ملک میں کمزور اور طاقتور کے لیے الگ الگ نظام موجود ہے۔ آج کی عدلیہ کیا کرتی ہے ۔ اس کا فیصلہ تو تاریخ کا مورخ کرے گا مگر ماضی میں عدلیہ کا جو کردار رہا ہے وہ تابناک نہیں ہے اور اس کا اظہار خود اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے اسی کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران کیا۔ انہو ں نے ایک نہیں کئی کیسوں کا حوالے دیا کہ کس طرح عدلیہ نے انصاف کو داغدار کیا ہے۔ فی الحال جو منظر کشی بنتی دیکھائی دے رہی ہے کہ متواتر ایسی خبریں اور چیزیں سامنے آرہی ہیں جس کا فائدہ نواز شریف اور مریم نواز کو ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ۔ اب اس سب کے پیچھے کون ہے مجھے نہیں معلوم مجھے بس یہ معلوم ہے کہ جو بھی ہو جائے شریفوں نے ابھی تک رسیدیں نہیں دیں ۔ آسان الفاظ میں اندرون ملک اور بیرون ملک کوئی ایسی خبر نہیں ۔ جس پر کہا جائے کہ پاکستان کے لیے اچھی ہے ۔ سیاست ، معیشت ، انصاف اور گورننس ہر طرف زوال یہ دیکھائی دے رہا ہے ۔ اب اس کا قصور وار کون ہے ۔ آپ نیچے کمنٹس میں لازمی بتائیں ۔ مگر میں اپنی رائے دے دیتا ہوں ۔ مہذب معاشروں اور یورپی جمہوریتوں میں جن کا عمران خان بہت حوالہ دیتے ہیں ۔ تمام مسائل کی ذمہ دار حکومت وقت ہی ہوتی ہے ۔ دوسری جانب مشیر خزانہ نے آج پریس کانفرنس کرکے اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو خوشخبری سنائی ہے کہ ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں معاملات طے پا گئے ہیں ۔ مگر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ حکومت ٹیکس ریفارمز جاری رکھے ۔ یعنی عوام کو تن کر رکھے ۔ کوئی ریلیف نہ دیا جائے ۔

۔ اب کیونکہ یہ بڑی ہی تابعدار حکومت ہے ۔ اور شوکت ترین نے تو بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا ہے کہ اگلے چند ماہ اب بجلی کی قیمت بڑھا کر عوام کو جھٹکے دئے جائیں گے ۔ اس لیے اچھے بچوں کی طرح اس حکومت نے آج ہی بجلی کی قیمتوں میں چار روپے 75 پیسے بڑھانے کی سمری نیپرا کو بھیج دی ہے ۔ اب آپ کو سمجھ آئی کپتان کی عقلمندی کی پیڑول کی قیمت نہیں بڑھائی تو خسارہ بجلی کی قیمت بڑھا کر پورا کر لیا جائے گا ۔ اس کو کہتے ہیں پرفارمنس ۔۔۔ ۔ پھر اب تو یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت ایک ڈالر فی لٹر نہ ہو جائے۔ ۔ یاد رکھیں یہ وہ ہی حکومت ہے جس نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم نہیں کریں گے ۔ ۔ فی الحال عوام کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری 4.8
فیصد مزید بڑھے گی ۔ جس کے مطابق سال 2022ء پاکستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوگا اور اشیائے ضروری کی قیمتوں میں 8.5فیصد اضافہ جاری رہے گا۔ پچھلے دنوں عمران خان نے کہا تھا کہ ہمارے دور میں ملک سے غربت کم ہوئی ، غربت ان ممالک میں بڑھتی ہے جہاں حکمران چور ہوں ، وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ قانون کی بالا دستی والے ملک میں غربت نہیں ہوتی ۔ اب جب ملک کا وزیر اعظم یہ سوچ رکھتا ہوکہ اس کو ملک میں مسائل ہی نہ نظر آئیں تو حل کیسے ہوگا ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے پاکستان میں غربت اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ممکن ہے کہ وزیر اعظم کو ان کے وزیر مشیر حقیقی صورتحال سے آگاہ نہ کرتے ہوں مگر ان کے عوام کے پاس آ کر اپنی آنکھوں سے حالات دیکھنے چاہئیں۔ معاشی اعتبار سے یہ تمام باتیں خوفناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ میں آپکو بتاوں پاکستان میں نوے فیصد آبادی لٹنے کے لئے ہے اور دس فیصد لوٹنے والے ہیں۔ مگر تاثر یہی دیا جاتا ہے یہاں ہر کوئی لوٹ مار کر رہا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ بھی اشرافیہ کی سوچی سمجھی سازش ہے کہ ملک میں آوے کا اوا بگڑا ہوا ہے تاکہ اپنے ناجائز کاموں کو ایک جواز فراہم کیا جا سکے۔ اس ملک کے کروڑوں کسان، مزدور، سفید پوش مڈل کلاسیئے، چھوٹے موٹے دکاندار، قلم پیشہ ہنر مند، اساتذہ اور فنکار کرپٹ نہیں کیونکہ کرپشن ان کی زندگی کا چلن ہی نہیں وہ تو صرف کرپشن کے جبر کا شکار ہیں۔ ۔ میں آپکو بتاوں 1965تک پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے ممالک میں ہوتاتھا۔ پے درپے داخلی سیاسی بحرانوں میں اسے ایسا الجھایا گیا کہ ترقی کی پٹری سے نہ صرف اترگیا بلکہ نااہلی کا دیمک اسے مسلسل چاٹنے لگا۔ اب سارا نظام کھوکھلا ہو چکا ہے ۔

حقیقت میں عمران خان نے اس ملک کو سب سے بڑا ڈینٹ ڈالا ہے ۔ کیونکہ انھوں نے پورے ملک کو ۔۔۔ میرے ۔۔۔ اور ۔۔۔ تمہارے ۔۔۔ میں بانٹ دیا ہے ۔ میڈیا سے شروع کریں تو یہ بھی حکومتی ، اسٹمبلیشمنٹ اور اپوزیشن کے کمیپوں میں بٹا ہوا ہے ۔ ہماری بیوروکریسی بھی ریاست کی نہیں اپنی اور اپنی سیاسی جماعت کی وفادار ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارا تاجر ، ہمارا صنعت کار ، ہماری تجارتی انجمنیں یہاں تک کہ ہمارا ریڑھی اور چنگ چی والا بھی سوائے اپنے مفاد اور اپنی پارٹی کے کوئی اور زبان نہیں سمجھتا۔ عدلیہ میں دیکھ لیں ، ڈاکٹرز میں دیکھ لیں ۔ ہر جگہ آپکو کپتان کی دی ہوئی یہ تفریق دیکھائی دے گی ۔ ۔ آج اس ملک میں جتنی polarization ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔

Shares: