جیمز ویب:سُپر نووا کے اندرونی سانچے کے متعلق نئے انکشافات

یہ تقریباً 400 سالوں میں زمین سے دیکھا جانے والا قریب ترین، روشن ترین سپرنووا تھا
galaxy

واشنگٹن: ماہرین فلکیات نے زمین سے 1 لاکھ 68 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود زیر مطالعہ سُپر نووا کے اندرونی سانچے کے متعلق نئے انکشافات کئے ہیں یہ معلومات ستاروں کے دھماکے سے پھٹنے کے متعلق مزید معموں کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

باغی ٹی وی: 1987 میں دریافت ہونے والے سُپر نووا ایس این 1987 اے کا مطالعہ سائنس دان پچھلی تین دہائیوں سے کر رہے ہیں سُپر نووا ستارے کا وہ طاقت ور دھماکا ہوتا ہے جو اس کی زندگی کے اختتام پر ہوتا ہےجب ستارہ 1987 میں عروج پر تھا، تو یہ تقریباً 400 سالوں میں زمین سے دیکھا جانے والا قریب ترین، روشن ترین سپرنووا تھا تاہم اب نئی سپر اسپیس ٹیلی سکوپ جیمز ویب ہمیں ایسی تفصیلات دکھا رہی ہے جو پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھیں۔

SN1987A بڑے میجیلانک کلاؤڈ میں ہم سے محض 170,000 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، جو ہماری اپنی کہکشاں سے متصل ایک بونی کہکشاں ہے ماہرین فلکیات اس چیز سے متوجہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایک پیچیدہ منظر پیش کرتا ہے کہ جب بڑے ستارے اپنے دن ختم ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے-

موبائل فون سے تیزی سے پھیلنے والا مرض نوموفوبیا کیا ہے؟

ناسا کے مطابق تازہ ترین مشاہدوں میں سپر نووا کے مرکزی سانچے کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ چابی کے سوراخ جیسا دِکھنے والا یہ سانچہ دبیز گیس سے اور دھماکے سے خارج ہونے والی گرد سے بھرا ہوا ہے

محققین کے مطابق یہ گرد اتنی گاڑھی ہے کہ جدید جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ بھی اس کے پار نہیں دیکھ سکتی اور یہی چیز چابی کے سوراخ جیسی شکل کا سبب بھی ہے۔یہ شکل اطراف میں موجود روشن چھلے اور دو بیرونی چھلوں کے سبب بھی وجود میں آتی ہے۔

اطراف میں موجود اکوئیٹوریل رِنگ سپرنووا سے ہزاروں سال قبل خارج ہونے والے مادے سے بنا ہے۔ اس چھلے میں روشن ہاٹ اسپاٹ بھی موجود ہیں جو سپر نووا سے خارج ہونے والی شاک ویو ٹکرانے کے سبب وجود میں آئے ہیں۔

امریکا کا یوکرین کوڈیپلیٹڈ یورینیم گولہ بارود فراہم کرنے کا فیصلہ

اس سپر نووا کا کئی سالوں تک ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ اور اسپٹزر اسپیس ٹیلی اسکوپ سے مطالعہ کیا گیا لیکن جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی غیر معمولی صلاحیتیں وہ پوشیدہ حقائق سامنے لے کر آئیں جو اس سے قبل نہیں آسکیں تھیں۔

Comments are closed.