سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نےسابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ پر عائد 20ہزار روپے جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ کی نظرثانی درخواست واپس لینے پر جرمانہ ختم کیا گیا۔

سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل فیصلے کیخلاف اپیلوں پر ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ سماعت کررہا ہے،وکیل خواجہ احمد حسین نے کہاکہ عدالت کے سامنے ایک مسئلہ بنیادی حقوق اوردوسراقومی سلامتی ہے،عدالت نے دونوں میں توازن پیدا کرنا ہو تو بنیادی حقوق کاتحفظ کیا جاتا ہے،عدالتی فیصلہ برقرا رہا تو کسی ملزم یا دہشتگرد کو فائدہ نہیں پہنچے گا، انسداددہشتگردی کاقانون موجود ہے جس میں گواہان کے تحفظ سمیت تمام شقیں ہیں،عدالت کسی بھی صورت شہریوں کو شفاف ٹرائل سے متصادم نظام کے سپرد نہیں کر سکتی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ سندھ میں گواہان کے تحفظ کا اہلگ سے قانون بھی موجود ہے۔ آئینی بنچ نے جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ پر عائد 20ہزار روپے جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ کی نظرثانی درخواست واپس لینے پر جرمانہ ختم کیا گیا۔

دوران سماعت وکیل خواجہ احمد حسین نے کہاکہ فرخ بخت علی پر ملک مخالف جنگ کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا،فرخ بخت علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیا الحق نے 1974میں کیا، فرخ بخت علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی،کورٹ مارشل کرنے والے ضیا الحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے،ضیا الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے، جسٹس حسن اظہر نے کہاکہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئرچیف کو بھی اغوا کرلیاگیا تھا،اغوا کار نے اپنے کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں،جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس حسن اظہر رضوی سے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟جسٹس حسن اظہر رضوی نے جواب کیا کہ اس کیلئے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی،جسٹس حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے،سپریم کورٹ میں سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔

Shares: