سپریم کورٹ،مصطفیٰ کمال کی معافی مسترد،پریس کانفرنس دکھانے والے چینل کو نوٹس

مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس اتفاقی تھی یا فیصل واوڈا سے متاثر ہوئے؟ چیف جسٹس کا استفسار
0
76
supreme

سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فاٸزعیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےسماعت کی،بنچ میں جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان شامل ہیں،سپریم کورٹ طلبی پر فیصل واڈا، کمال مصطفی عدالت پیش ہو گئے،مصطفی کمال کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم اور فیصل واوڈا روسٹرم پر آگئے،بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے غیر مشروط معافی کی درخواست مصطفے کمال کی جانب سے دائر کی ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ وہ درخواست پڑھیں، فروغ نسیم نے مصطفی کمال کا معافی کی درخواست پڑھ کر سنائی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں ربا کا ذکر کیا ہے اس کا کیا مطلب؟ ربا والا کیس کا فیصلہ ہو نہیں چکا؟ فروغ نسیم نے کہا کہ ربا والا کیس اس وقت وفاقی شریعت عدالت میں زیر التوا ہے اس پیرائے میں میرے مؤکل نے بات کی تھی ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ ربا والے معاملے پر دوسرے جج کی تعیناتی کا مسئلہ حل ہوجائے گا، نئے جج کی تعیناتی اس لئے کی جارہی ہے کہ ایک عالم جج فوت ہوچکے ہیں

، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کی عزت کرنی چاہئے، مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس اتفاقی تھی یا فیصل واوڈا سے متاثر ہوئے؟ اس پر وکیل فروغ نسیم نے کہا، پریس کانفرنس اتفاقی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ کیوں آپ لوگ فیصل واوڈا سے متاثر نہیں ہیں ، کیا آپ اب بھی سینیٹر ہیں ، فروغ نسیم نے کہا کہ نہیں اب میں سینیٹر نہیں ہوں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ بطور کورٹ آفسر بتائیں کہ آپ کے موکل کے توہینِ عدالت کی ہے یا نہیں ؟ وکیل مصطفیٰ کمال نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس توہین عدالت نہیں ہے،

مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس توہین نہیں تھی تو معافی کس بات کی مانگ رہے ؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کا بے حد احترام کرتے ہیں،پارلیمنٹ نے کئی قوانین بنائے مگر ہم نے کچھ نہیں کہا،پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ آئینی باڈی ہے ،اگر مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس توہین نہیں تھی تو معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں؟قوم کو ایک ایسی پارلیمنٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو ، میرا خیال ہے یہ پہلی بار ہے کہ ہم نے توہین عدالت کا نوٹس لیا ہے ، فیصل واوڈا سینیٹ میں ہیں وہاں تو اور بھی سلجھے ہوئے لوگ ہونے چاہئیں ، جب ارکان پارلیمنٹ ہوتے ہوئے عدلیہ پر ایسا حملہ کیا جائے تو یہ ایک آئینی ادارے کا دوسرے ادارے پر حملہ ہوتا ہے،اگر مصطفیٰ کمال سمجھتےہیں کہ انہوں نےتوہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کریں گے،اپ ڈرائنگ روم میں بات کرتےتو الگ بات تھی، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتےتوکچھ تحفظ حاصل ہوتا، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہا کہ معافی کی گنجائش اسلام میں قتل پر بھی ہے مگر اعتراف جرم لازم ہےآپ نے پریس کلب میں جا کر تو معافی نہیں مانگی،بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفیٰ کمال ایسا کرنے پر بھی تیار ہیں مصطفیٰ کمال کی معافی مانگنے کی وجہ یہ ہے وہ عدلیہ کی عزت کرنا چاہتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی ججز کے کنڈکٹ کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا ، میں دونوں ملزمان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر بات ہو تو وہ توہین عدالت نہیں وہ ایک فیئر کمنٹ ہے،ہم آپ کے مؤکل کی تقریر سنتے ہیں اور اس میں کوئی توہین والا عنصر نکل آئے تو کیا کریں؟ فروغ نسیم نے کہا کہ سر اس میں ایک آدھ جملہ ہوسکتا ہے اس لئے عدالت سے معافی کے طلبگار ہیں

جسٹس عرفان سعادت نے فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اپنے کہے ہوئے الفاظ پر شرمندہ ہیں ؟ فروغ نسیم نے کہا کہ جی بلکل ، ہم نے یہ بات اپنے جواب میں لکھی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی دوہری شہریت پر کوئی پابندی نہیں،فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفی کمال نے ججز کی دوہری شہریت پر کوئی بات نہیں کی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں لکھاہے کہ پارلیمنٹ میں کسی جج کے حوالے سے بات نہیں کی جاسکتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایسا کوئی ممبر کرتا ہے تو پھر کیا ہونا چاہیئے۔ ؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس پر آئین اور قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیئے،میں دونوں شخصیات کے بارے میں کہوں گا وہ پارلیمنٹرینز ہیں بات کرنے سے پہلے سوچیں، پارلیمنیٹیرنز نے خود پارلیمنٹ کے ممبرز پر دوہری شہریت کی پابندی لگائی ہے،

کچھ لوگ کہتے ہیں عدلیہ کو ڈرا دھمکا کر گالیاں دے کر فیصلے لے لو، گالی گلوچ کرنے والے کس سے متاثر ہیں؟چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے سامنے دوہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کا کیس ہے، آئین پاکستان دیکھیں، کتنے خوبصورت الفاظ سے شروع ہوتاہے، جو لوگ گالم گلوج کرتے کہان سے اثر لیتےہیں، کیا ایسا دینی فرائض میں ہے؟ ہمیں کسی کو توہین کا نوٹس دینے کا شوق نہیں، امام نے فرمایا تھا کسی سے اختلاف ایسے کریں کہ اس کے سر پر چڑیا بیٹھی ہو تو بھی نہ اڑے، کچھ لوگ کہتے ہیں عدلیہ کو ڈرا دھمکا کر گالیاں دے کر فیصلے لے لو، گالی گلوچ کرنے والے کس سے متاثر ہیں؟ اختلاف رائے کے بھی قواعد ہیں، اسلام سے دور ہوکر ہر بندا گالم گلوچ پر اترا ہوا ہے، فیصلوں پر جتنی مرضی تنقید کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، عدلیہ اور پارلیمان کو لوگوں نے لڑنے کیلئے نہیں بنایا، آپ کو کوئی جج بے ایمان لگتا ہے تو ریفرنس دائر کردیں

34 منٹ پریس کانفرنس چلائی گئی مگر نامناسب الفاظ کو نہیں روکا گیا؟ کیا ہم ٹی وی چینل کو نوٹسز جاری کردیں؟ کیا ٹی وی چینلز 34 منٹ معافی بھی چلائینگے؟چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ توہین کا مذہب میں کیا اسٹیٹس ہے، فیصل واوڈا کے وکیل سے پوچھ لیتے ہیں،وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ مجھے اس بارے میں قرآن پاک کی آیات یاد نہیں لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مذہب میں ڈیسنسی کا خیال رکھا جائے، جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ اس حوالے سے احادیث موجود ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کو قرآن پاک سے سمجھاتے ہیں، سورہ الحجرات میں ایسی آیات ہیں،ہر روز گالم گلوچ سنتے ہیں،ٹی وی والے سب چلادیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فریڈم آف اسپیچ ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا کی رپورٹ ہے 34منٹ کی پریس کانفرنس ٹی وی چینلز نے چلائی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اب ان ٹی وی والوں کو نوٹس دیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں سب کو نوٹس دینے چاہئیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پیمرا نے ایک رول بنایا ہے کہ کورٹ کارروائی ریکارڈ اور رپورٹ نہیں ہوگی ،کیا ایسا کوئی آرڈر پیمرا نے ارڈر جاری کیا ہے ؟اگر کوئی توہین عدالت کے الفاظ ہوں تو اس پر کارروائی کی جاسکتی ہے، ایک طرف پوری پریس کانفرنس دکھائی گئی اس پر پیمر انے نوٹس نہیں لیا لیکن کورٹ کی رپورٹنگ اور ریکارڈنگ سے روک دیا،کیا ایسا معیارہے،، ادارے ایسے چلتے ہیں ،پیمرا کے نوٹیفیکیشن کے بارے میں اخبار میں پڑھا تھا،اس کا پرنٹ لے لیں، کیا ٹی وی چینلز کے اندر کوئی معیار ہے؟ 34 منٹ پریس کانفرنس چلائی گئی مگر نامناسب الفاظ کو نہیں روکا گیا؟ کیا ہم ٹی وی چینل کو نوٹسز جاری کردیں؟ کیا ٹی وی چینلز 34 منٹ معافی بھی چلائینگے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی وی چینلز کو معافی بھی 34 منٹ چلانی چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب ان کی جیبوں پر جرمانے کی مد میں بات آئے گی تو پتہ چل جائے گا؟ پیمرا نے عدالتی سماعتوں کو نشر نہ کرنے کا عجیب قانون بنایا؟ عجیب قانون ہے کیا یہ آئین کے خلاف ہے؟

مجھے اوپر والے سے ڈر لگتا ہے مجھے جس نے گالی دی اسے بھی انصاف دینا ہے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے نہیں کہا ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں ،فیصل واوڈا کے وکیل کی بڑی شرعی شکل ہے،فیصل واوڈا کے وکیل وکیل معیزاحمد روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ اللہ کرے ہمارے اعمال بھی شرعی ہو جائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں علم ہی نہ ہو کہ قرآن میں اس بارے کیا ہے تو کیا کریں ،ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوج کو ترویج دیتے ہیں ، ایسی گالم گلوچ کسی اور ملک میں بھی ہوتی ہے ،مجھے جتنی گالیاں پڑی ہیں شاید کسی کو نہ پڑی ہوں ،کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیامجھے اوپر والے سے ڈر لگتا ہے مجھے جس نے گالی دی اسے بھی انصاف دینا ہے ،وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ میرے موکل پیمرا سے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے اپنی نہیں آپ کو سننا ہے ، آپ وکیل ہیں ، فیصل واوڈا اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے ، کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ، ہم نے کبھی کہا فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی ،

باہر جاکر نامعلوم اکاؤنٹ سے پوسٹ کردیتے ہیں،اتنی بہادری ہے توسامنے آئیں،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں بیٹھے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کر جاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تو نہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی ، باہر جاکر نامعلوم اکاؤنٹ سے پوسٹ کردیتے ہیں،اتنی بہادری ہے توسامنے آئیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ کا وکالت نامہ ختم ہوچکا ہے جو موکل بات کرنا چاہے ہیں؟ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کا ا سکرپٹ موجود ہے، جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ ٹرانسکرپشن میں لکھا ہے کہ پریس کانفرنس میں 2ہائیکورٹ کے ججز کا نام لیا گیا، کیا وہ پریس کانفرنس ججز سے متعلق ہی تھی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا عدلیہ سے متعلق پریس کانفرنس کی، وہ بار کونسل یا بار ایسو سی ایشن ہیں؟کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ یہ کام کرے وہ کام کرے ؟یہاں تو جھوٹ پر لوگوں کو ڈالرز ملتے ہیں ، ایک ویڈیو کو زیادہ دیکھا جاتاہے ،ہر بات سورس کے ذریعے کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی سورس نہیں ہوتا، صحافیوں کا کیس ہم نے اٹھایا ان کے سارے کیسز سن رہے ہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واوڈا کے وکیل سے کہا کہ کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں ؟ وکیل نے کہا کہ میں مشورہ کرکے بتاتا ہوں،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہم مزید وقت دے سکتے ہیں، فیصل واوڈا روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ روسٹرم پر بات کرنا چاہتا ہوں ،جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے وکیل موجود ہیں، وہ نہ ہوتے تو بات کرسکتے تھے

کبھی زبان سے بات نکل جاتی ہے لیکن پریس کانفرنس کے ڈائنامکس الگ ہیں،چیف جسٹس
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ پیمرا کورٹ رپورٹنگ سے متعلق جو ہدایات ہیں وہ درست نہیں ،پیمرا کو چاہیے کہ وہ ایک چیک کا نظام رکھے،چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ اور ہمیں کام کے لیے بٹھایا گیا،صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ شام کو ٹاک شوز میں باتیں ہوتی ہیں اس کو بھی دیکھنا ہےچیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھر چینلز کو نوٹس جاری کیے جائیں ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چینلز سے پوچھیں کہ ان کی ایڈیٹوریل پالیسی کیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ آپ بے شک فیصلوں پر تنقید کریں لیکن بہتر طریقے سے کریں،کیا ایک جملے میں10 بار توہین ہورہی ہے تو پھر کیا وہ ایک توہین ہوگی؟کبھی زبان سے بات نکل جاتی ہے لیکن پریس کانفرنس کے ڈائنامکس الگ ہیں،فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال توہین عدالت کیس کی سماعت28جون تک ملتوی کر دی گئی.

سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی درخواست مسترد کر دی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے؟ کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی. آپ نے کس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا ؟سپریم کورٹ نے فیصل واوڈ اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس دکھانےوالے تمام چینلز کو نوٹس جاری کر دیا،

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان دینے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا،  سینیٹر فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کر کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اداروں کی دخل اندازی کے ثبوت دیں!میرے خط کا جواب کیوں نہیں دیا؟کیا آپ انصاف کررہے ہیں؟ جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہوئے ہیں؟ میری ماں کے لیے سوشل میڈیا پر بیان بازی ہو رہی تھی اس وقت بھی نوٹس لیا جاتا، کل پنجاب میں بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اس پر بھی نوٹس لیا جاتا، جسٹس بابر ستار کو ایک سال بعد باتیں یاد آرہی ہیں، اب الزامات کے شواہد بھی دینا پڑیں گے، مداخلت کے شواہد لے آئیں ہم آپ کیساتھ کھڑے ہیں، بتایا جائے کس نے آپکے کام میں مداخلت کی،ججز کو شفاف اور الزامات سے دور ہونا چاہیئے، قانون بنانے والے دہری شہریت نہیں رکھ سکتے تو جج کیسے رکھ سکتے ہیں

Leave a reply