سپریم کورٹ: سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 13 ججز پر مشتمل فل کورٹ نے سماعت کی،جسٹس مسرت ہلالی طبیعت ناسازی کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں ہیں ،سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی ایڈوکیٹ روسٹرم پر آگئے ، فیصل صدیقی نے گزشتہ سماعت کا عدالتی حکم نامہ پڑھ کر سنایا،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوئی تنازع نہیں، کیونکہ وہاں ہماری کوئی نمائندگی نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا 2 اپیلیں فائل کی گئی ہیں؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جی دو اپیلیں ہم نے فائل کی ہیں، ایک میری اور دوسری خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے فائل کی گئی ،ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ توہین عدالت کا ایک کیس عدالتوں میں زیر التوا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر توہین عدالت کیس ہے تو ایڈووکیٹ جنرل استغاثہ بنتے ہیں، ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس وزیر اعلی ٰ خیبرپختونخوا کے خلاف ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر توہین عدالت کی کارروائی چلتی ہے تو کیا موقف ہوگا؟ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس وزیر اعلیٰ کو ذاتی حیثیت میں دیا گیا،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایک درخواست پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر نے دائر کی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ درخواستوں پر سماعت کرتے ہیں اس پر کیا فیصلہ آئے گا وہ دیکھیں گے، سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست جیتی؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جی نہیں، سنی اتحاد کونسل نے قومی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں جیتی، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں اور میرے ساتھی ججز کے سوال نوٹ کر لیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ پارٹی کسی کو نامزد کرے، سرٹیفکیٹ دے اور امیدوار کی بھی خواہش ہے کہ میں اس پارٹی سے آؤں اور الیکشن کمیشن اسے آزاد ڈیکلیئر کر دے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں کس کو فریق بنایا گیا تھا اور فائدہ کس کو پہنچا، کس جماعت کو کتنی اضافی نشستیں ملیں وہ بتائیں، یہ بتائیں کہ یہ نشستیں کس کو گئیں؟ واضح ہے نشستیں سیاسی مخالفین کو گئی ہوں گی، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جنہیں اضافی نشستیں دی گئیں وہی بینیفشری ہیں، مجموعی طور پر 77 متنازع نشستیں ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی کی کتنی اور صوبائی اسمبلی کی کتنی نشستیں ہیں، تفصیل دے دیں؟ فیصل صدیقی نے عدالت میں کہا کہ قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازع ہیں،سندھ میں 2 نشستیں متنازع ہیں، ایک پیپلزپارٹی اور دوسری ایم کیو ایم کو ملی جبکہ پنجاب اسمبلی میں 21 نشستیں متنازع ہیں جس میں سے 19 نشستیں ن لیگ، ایک پیپلز پارٹی اور ایک استحکام پاکستان پارٹی کو ملی، اقلیتوں کی ایک متنازع نشست ن لیگ ، ایک پیپلزپارٹی کو ملی، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 8 متنازع نشستیں جے یو آئی کو ملیں، خیبرپختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بھی 5، 5 نشستیں ملیں، ایک نشست خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین اور ایک عوامی نیشنل پارٹی کو ملی، خیبرپختونخوا میں 3 اقلیتوں کی متنازع نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دی گئیں
مخصوص نشستوں کا کیس، جے یو آئی نے سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی مخالفت ،ن لیگ پیپلز پارٹی کی حمایت کر دی
جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دستاویز کو درخواست میں لگایا ہواہے ،
آپ کو پارٹی تسلیم کیا گیا وہ آ پ کا تیار کردہ دستاویز ہے ، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ دستاویز الیکشن کمیشن کا سرٹیفائیڈ ہے، عدالت نے کہا کہ کیا وہ سرٹیفائیڈ فہرست تھی جو کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ظاہر کرے؟وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے اپنی فہرست دی تھی لیکن اس کو مانا نہیں گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا تمام سیاسی جماعتوں کے وکلا کی نمائندگی یہاں موجود ہے ؟ پیپلزپارٹی کی طرف سے فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے،جے یو آئی کی جانب سے کامران مرتضٰی عدالت میں پیش ہوئے،خصوصی نشستوں سے متعلق کیس میں جے یو آئی نے اپنے وکیل سینٹر کامران مرتضی کے زریعے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے درخواست گزار یعنی پی ٹی آئی کے موقف کی مخالفت کر دی۔جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ عدالت پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی جماعت جے یو آئی پاکستان ہے یا ف؟کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی پاکستان، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ایف نکل جائے تو کیا حیثیت ہو گی،کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کسی بھی پارٹی سے کوئی بھی لیڈر نکل جائے تو حیثیت نہیں ہو گی،جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا ان جماعتوں نے اپنی نشستیں کتنی جیتی ہیں؟ جس پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو تمام جماعتوں کی نشستوں کی تفصیل بتادی،مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی مخالفت کر دی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتیں اضافی مخصوص نشستیں رکھنا چاہتی ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت آئین کے تحت اضافی مخصوص نشست نہیں لے سکتی،
سپریم کورٹ میں دوران سماعت بجلی چلی گئی، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہاں تو اب لاٸٹ بھی چلی گئی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ بجلی چلی گٸی تو پھر یہ جنریٹر سے کیوں نہیں آئی؟یہ ٹی وی اور لاٸٹس تو چل رہی ہے،
دوران سماعت بیرسٹر گوہر نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خطاب نہ کریں، یہ نہ کریں، درخواست دینی ہے تو دیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر کو بولنے سے روک دیا۔
پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اس کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں،جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ”الیکشن کمیشن نے ان ممبران کو آزاد ڈیکلیئر نہیں کیا بلکہ سنی اتحاد کونسل کا ممبر نوٹیفائی کیا ہے” چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ "کیا دیگر جماعتیں آپکی تائیدکرتی ہیں؟”- وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مائی لارڈ ان کو مال غنیمت ملا ہے وہ کیوں ہماری تایئد کریں گے،15دسمبر کو الیکشن شیڈول جاری کیا گیا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لیا، پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی،کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں 2 دن کا اضافہ کیا گیا، پشاور ہائیکورٹ نے بلے کے نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہوگئی اور جنازہ نکل گیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے بطور سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لیا؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا آرٹیکل 218(3) پر فوکس بہت زیادہ رہتا ہے،کیا 17 فروری تک تمام جنرل نشستوں کے نتائج کا اعلان ہوچکا تھا؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کچھ کے علاوہ الیکشن کمیشن نے جنرل نشستوں کے نتائج کا اعلان کردیا تھا، 2فروری کو الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے درخواست جمع کرائی، الیکشن کمیشن نے 22 فروری کو سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا، سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا لیکن مخصوص نشستیں دینے سے انکار کردیا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ درجنوں سیاسی جماعتوں نے کبھی جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے کوئی غلطی بھی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن کو درست کرنا چاہیے تھا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی،الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا، اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ عوام نے کسی آزاد کو نہیں سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیئے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بادی النظر میں الیکشن کمیشن نے منطق کے بغیر فیصلہ دیا،ایک سیاسی جماعت الیکشن لڑ رہی ہو تو اس سے مخصوص نشستیں کیسے واپس لے سکتے ہیں،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی خود جماعت ہے تو کیس ختم ہوگیا،پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں پھر سنی اتحاد کونسل کیسے لے سکتی ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اس کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں،یہ سارا معاملہ عوام کا ہے،عوام سے ان کا حق نہیں لیا جاسکتا،
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں، لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کیخلاف جا سکتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آرٹیکل 218 تین کا حوالہ دینا بہت پسند ہے،
دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے منع کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ سارا معاملہ عوام کا ہے، ٹیکنکلٹی کے ذریعے عوام کا حق نہیں لیا جاسکتا، الیکشن کمیشن کو یہ غلطی خود درست کرنی چاہئے تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل سے کہا کہ کہ آپ مزید بحث کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کیس پر بحث کریں، میں آپ کو ریسکیو کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ ریسکیو ہونا نہیں چاہتے، دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے منع کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں،آپ آگے بڑھیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے،فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے، اس قسم کا بیان تسلیم نہیں کیا جاسکتا ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا،
،آزاد ارکان نے شامل ہونا تھا تو پی ٹی آئی میں ہی ہوجاتے،جسٹس جمال مندو خیل
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ پی ٹی آئی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا ریکارڈ دکھائیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا ریکارڈ کچھ دیر تک جمع کرا دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں کیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن غیر قانونی کام کرے تو کیا ہم اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آئین کے مطابق تین روز میں آزاد امیدوار کوئی جماعت چن سکتے ہیں، ہوسکتا ہے چار روز بعد پی ٹی آئی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئی ہو،شمیولیت صرف آزاد ارکان کر سکتے ہیں،کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی والے آزاد امیدوار تھے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ آزاد امیدوار کے طور پر ہی نوٹیفائی ہوئے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ تکنیکی نکات کی بنیاد پر عوام کو ڈس فرنچائز نہیں کیا جا سکتا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اب غلطی تسلیم کرتے ہوئے آزاد ارکان کو دوبارہ تین دن کا وقت دیدے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلے کے نشان کو اتنا ہوا بنایا کہ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ گمراہ ہوگئے، لوگوں نے ووٹ تحریک انصاف کو دیا تھا، یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی نشست نہیں تھی،آزاد ارکان نے شامل ہونا تھا تو پی ٹی آئی میں ہی ہوجاتے،آپکے مطابق سنی اتحاد کی کوئی جنرل نشست تھی نہ ہی پی ٹی آئی کی،بلے کے نشان والے فیصلے کو نہ کسی نے پڑھا نہ ہی سمجھا،
جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پی ٹی آئی کی جانب سے نہیں بول سکتے ، میرے قلم نے آدھے گھنٹے سے کچھ نہیں لکھا، آپ نے آدھے گھنٹے سے کچھ بھی نہیں لکھوایا،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں پہلے حقائق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں،آپ کا قلم سوکھنے نہیں دونگا،
قانون کیمطابق مخصوص نشستوں کیلئے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں،وکیل فیصل صدیقی
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ریکارڈ دکھا دیں کس روز پی ٹی آئی نے درخواست کی اور سنی اتحاد کونسل نے منظور کی،وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا تمام ریکارڈ دے دیتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صرف ایک کاغذکے ٹکڑے سے کیسے مان لیں کہ سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی کی شمولیت ہوگئی، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ قانون کیمطابق مخصوص نشستوں کیلئے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں، آزاد امیدوار بھی جماعت میں شامل ہوجائیں تو مخصوص نشستیں دی جانی ہیں ماضی میں ایک قانون آیا تھا کہ مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن لڑنا اور پانچ فیصد ووٹ لینا لازم ہے ، وہ قانون بعد میں ختم کر دیا گیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا حقیقی پوزیشن یہی ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جی سارا تنازعہ یہی ہے،الیکشن کمیشن اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کر چکا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نشست حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ الیکشن میں جیتنا ضروری ہے، آزاد امیدواروں کی شمولیت سے بھی نشستیں لی جا سکتی ہیں،کینیڈا کی سپریم کورٹ میں گیا وہاں ایک گھنٹے میں وکیل دلائل مکمل کرتے ہیں،کینیڈا کی سپریم کورٹ میں بھی ججز سوال پوچھ رہے تھے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ وقت مقرر کر دیں تو وکلاء اس کے اندر دلائل مکمل کر دینگے، یہ بات کینیڈا کی سپریم کورٹ سے نہیں اپنی بیگم سے سیکھی ہے، بیگم جو وقت مقرر کرتی ہے میں اس سے آگے نہیں جاتا،
غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو واپس دی جا سکتی ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ نشستیں خالی چھوڑ دیں نہ آپکو ملیں نہ کسی اور کو،آرٹیکل 51 کے مطابق نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی اور کو دینے سے نشستیں خالی چھوڑنا ہی بہتر ہے، جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ایسی جماعت جو الیکشن نہ لڑے سیاسی جماعت کیسے قرار دی جا سکتی ہے؟ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہی نہیں تھی تو اس میں شمولیت کیسے ہوسکتی؟سنی اتحاد میں شمولیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ ضروری ہوگا کہ آرٹیکل 51 کی تشریح کیلئے ووٹرز کا حق بھی مدنظر رکھا جائے،اصل حق تو ووٹرز کا ہے باقی تو سب بعد کی باتیں ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ساری بحث سیاسی جماعتوں کے سیاق و سباق میں ہو رہی ہے،کیا الیکشن کمیشن ووٹرز کے حق کو متاثر کر سکتا ہے؟ غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو واپس دی جا سکتی ہیں، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بلا واپس لیکر کہا بیٹنگ کرو،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ
بلا جماعت سے لیا تھا بلے بازوں سے نہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ امیدوار خود بلے کا نشان مانگ سکتے تھے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ کو اس نکتے پر لازمی سنیں،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں ہماری بلے کے بغیر بھی بلے بلے ہوگئی ہے، جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی،
ہر دور میں کوئی نہ کوئی زیر عتاب کیوں رہتا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل ایک ٹیکس کیس میں بھی لارجر بنچ بنا ہوا ہے وہ منسوخ کر رہے ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کیوں بنائی تھی،پیپلز پارٹی اور تلوار چھین لیے گئے تھے، مسلم لیگ ن کیساتھ بھی یہی ہوا ہے،ہر دور میں کوئی نہ کوئی زیر عتاب کیوں رہتا ہے، ایسی صورتحال میں قانون کی تشریح اسی تناظر میں ہی کرنی چاہیے سب کچھ سامنے بھی ہوتا ہے نظر بھی آ رہا ہوتا ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ حق دار کو اس کا حق واپس کرکے انہیں نشستوں کا دعویٰ کرنے دیا جائے، لوگوں نے ووٹ تحریک انصاف کو دیا تھا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاسی معاملات پر پارلیمان میں بحث ہونی چاہیے لیکن ہر چیز یہاں آتی ہے،کوئی یہاں سے خوش اور کوئی ناراض جاتا ہے،
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی
واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ واپس لینے کیلئے یہ اعتراف کرلینا چاہئیے کہ الیکشن والے دن بہت بڑی فاش غلطی ہوئی,عدالتی فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہر علی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں 180 سیٹیں ہیں، اب حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگی، خیبرپختونخوا سمبلی سے مخصوص نشستوں پر حلف نہیں لیا گیا،ہم نے کہا تھا صدارتی الیکشن نہ کروائیں ،عدلیہ پر اعتماد ہے درخواست ہے کہ باقی کیسز بھی اٹھائے جائیں،شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سیٹیں دوسری پارٹیوں کو اٹھا کر دے دی گئیں، ہمارے پاس انتخابی نشان نہیں تھا مگر پھر بھی 180 سیٹیں ہم جیت گئے، ہمارے لوگوں کو اٹھایا گیا، گھروں پر چھاپے مارے گئے، اسلام آباد کی تینوں سیٹیں پی ٹی آئی نے جیتیں، مگر کٹھ پتلیوں کو ایم این اے بنا دیا گیا ہے،
بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو
حریم شاہ مبشر لقمان کے جہاز تک کیسے پہنچی؟ حقائق مبشر لقمان سامنے لے آئے
حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان
میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ