سوات سول سوسائٹی کی جانب سے واقعہ دریائے سوات پر ایف آئی آر کے لیے درخواست دینا، سوات کے عوام کی جانب سے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کو بہترین طریقے سے نبھانے کے مترادف ہے،
سوات میں حالیہ دلخراش واقعے، جس میں 18 افراد دریائے سوات میں بہہ گئے، پر سوات سیول سوسائٹی کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ سول سوسائٹی کے صدر عزیز الحق کی سربراہی میں ایک تحریری درخواست تھانے میں جمع کرائی گئی ہے، جس میں اس سانحے کے تمام ممکنہ ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی اور ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے. درخواست میں واضح طور پر مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ محض قدرتی حادثہ نہیں، بلکہ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کا نتیجہ ہے؛ سیول سوسائٹی کے مطابق، یہ صرف متاثرہ خاندانوں کا نہیں، بلکہ پورے سوات کے عوام کا مقدمہ ہے اگر اس بار خاموشی اختیار کی گئی، تو کل ہر شہری خطرے میں ہوگا۔
یہ واقعہ ایک سنگین سانحہ ہے جس نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے، لیکن سیاحوں کے جانی و مالی نقصانات کو روکنے اور انہیں مناسب سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات اکثر ناکافی ہوتے ہیں۔ سوات جیسی خوبصورت وادیوں میں سیاحت کا فروغ بہت ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی حفاظت، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہترین انتظامات بھی انتہائی لازم ہیں۔ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دریاؤں کے کنارے یا دیگر خطرناک مقامات پر حفاظتی باڑ، وارننگ سائنز، ریسکیو ٹیموں کی دستیابی، اور غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام کتنی اہم ہے۔دریائے سوات میں پیش آنے والے دلخراش واقعے پر ایف آئی آر کے لیے درخواست دینا، سوات کے عوام کی جانب سے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کو بہترین طریقے سے نبھانے کے مترادف ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے بیدار ہیں اور ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں۔
اب گیند انتظامیہ کے کورٹ میں ہے، اور ان کا کردار درج ذیل نکات پر مشتمل ہونا چاہیے،سول سوسائٹی کی درخواست پر فوری طور پر ایف آئی آر کا اندراج کیا جائے تاکہ باقاعدہ قانونی کارروائی کا آغاز ہو سکے۔ایک غیر جانبدارانہ اور اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے جو واقعے کی ہر پہلو سے چھان بین کرے۔ تحقیقات میں نہ صرف فوری وجوہات بلکہ دیرینہ مسائل، جیسے غیر قانونی تعمیرات، حفاظتی اقدامات کی کمی، اور ضلعی انتظامیہ کے کردار کو بھی شامل کیا جائے۔ تحقیقاتی رپورٹ کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور اسے عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی افراد یا محکمے ذمہ دار پائے جائیں، چاہے وہ سرکاری اہلکار ہوں، ہوٹل مالکان ہوں، یا غیر قانونی قابضین، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ کسی بھی دباؤ یا سفارش کو خاطر میں نہ لایا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔سانحے کے متاثرین (متوفین کے لواحقین اور زخمیوں) کو مناسب معاوضہ اور ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔۔ان کے غم میں شریک ہو کر ان کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور جامع حکمت عملی وضع کی جائے۔ دریاؤں اور سیاحتی مقامات پر حفاظتی باڑ، وارننگ سائنز، اور ہنگامی صورتحال میں ریسکیو کی سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔ سیاحوں کے لیے معلوماتی اور حفاظتی ہدایات جاری کی جائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ مقامی انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کی صلاحیت کو بڑھایا جائے تاکہ وہ ایسے حالات سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں۔انتظامیہ پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس واقعے کو محض ایک حادثہ سمجھ کر نظر انداز نہ کرے، بلکہ اسے ایک موقع سمجھے تاکہ سوات میں سیاحت کو محفوظ بنایا جا سکے اور عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔