سانحہ سوات: سیاح بہہ گئے، تبدیلی رہ گئی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
26 جون 2025 کو دریائے سوات کے کنارے ایک دلخراش سانحہ پیش آیا جب سیالکوٹ سے آئے ایک خاندان سمیت 17 سیاح اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ 11 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں، 4 کو بچایا گیا جبکہ 2 کی تلاش جاری ہے۔ یہ واقعہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی 12 سالہ حکمرانی کی انتظامی ناکامی کا عکاس ہے۔ پی ٹی آئی نے "تبدیلی” کا نعرہ لگایا لیکن سوات کا یہ المناک سانحہ بتاتا ہے کہ سیاحوں کی حفاظت، ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور عوامی فلاح کے وعدے محض کاغذی نعروں تک محدود رہے۔

خیبر پختونخوا سیاحت کا گہوارہ ہے، جہاں سوات اور چترال جیسے دلکش مقامات لاکھوں سیاحوں کو کھینچتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے 2013 سے اپنی حکمرانی میں سیاحت کے فروغ کے بلند بانگ دعوے کیے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دریائے سوات کے کنارے غیر قانونی تجاوزات اور غیر محفوظ ناشتہ پوائنٹ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سیاحت کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ 2 جون سے دفعہ 144 کے تحت دریا کے کنارے جانے پر پابندی تھی، لیکن نہ سیاحوں کو روکا گیا اور نہ ہی انتظامیہ نے اس پابندی کو نافذ کیا۔ انتباہی بورڈ تو لگے تھے مگر پولیس اور مقامی انتظامیہ کی غیر فعالیت نے انہیں بے اثر کر دیا۔ محکمہ موسمیات کی یکم جولائی تک موسلادھار بارشوں کی پیشگوئی کے باوجود سیلاب کی پیشگی اطلاع کا نظام یا موسمیاتی خطرات کے انتظام کا کوئی موثر طریقہ موجود نہ تھا، جس نے اس سانحے کی شدت کو بڑھایا۔

ریسکیو 1122 اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) ہنگامی حالات سے نمٹنے کے کلیدی ادارے ہیں لیکن ان کی کارکردگی اس سانحے میں شرمناک حد تک ناکافی رہی۔ متاثرین نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کی ٹیمیں بروقت نہ پہنچیں اور نہ ہی ان کے پاس ضروری سازوسامان جیسے کشتیاں یا جال تھے۔ مردان کے روح الامین جو خود توبچ گیا لیکن انہوں نے اپنی بیٹی اور کزن کو اس سانحے میں کھو دیا، نے کہا کہ ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچیں لیکن کوئی مدد نہ کر سکیں۔ پی ڈی ایم اے نے خوازہ خیلہ میں پانی کی بلند سطح پر ہائی الرٹ جاری کیا، لیکن پیشگی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ 120 سے زائد ریسکیو اہلکار تعینات تھے مگر خراب موسم اور پانی کے تیز بہاؤ نے امدادی کارروائیوں کو معطل کر دیا، جس کے باعث پاک فوج کو طلب کرنا پڑا۔ یہ صورتحال صوبائی اداروں کی محدود صلاحیت اورناکامی کو بے نقاب کرتی ہے۔

سانحے کے بعد وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سمیت چار افسران کو معطل کر کے تفتیشی کمیٹی بنائی، لیکن کیا صرف نچلے درجے کے افسران کو قربانی کا بکرا بنانا کافی ہے؟ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے کیا علی امین گنڈاپور پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ اس سانحے نے 11 قیمتی جانیں چھین لیں، جن میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد شامل تھے۔ کیا ان اموات کی ذمہ داری وزیراعلیٰ پر نہیں آتی؟ عوامی حلقوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ صوبائی قیادت نے سیاحوں کی حفاظت کے لیے بنیادی ڈھانچہ کیوں نہ بنایا؟ کیا وفاقی حکومت اس سانحے پر نوٹس لے کر گنڈاپور کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث ہونے والے اس ناقابل تلافی نقصان پر انہیں ذمہ دار ٹھہرائے گی؟ پولیس کی تاخیر، غیر قانونی تجاوزات کی روک تھام میں ناکامی اور ہوٹل مالکان کی لاپروائی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ وزیراعلیٰ نے افسوس کا اظہار کیا، لیکن نہ وہ جاں بحق ہونے والوں کے جنازوں میں شریک ہوئے اور نہ ہی ورثاء سے ملے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی قیادت کی ترجیحات عوامی مسائل سے زیادہ سیاسی مفادات ہیں۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی کی قیادت صرف احتجاج اور سیاسی مہمات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے؟

پی ٹی آئی کی 12 سالہ حکمرانی میں نہ صرف سیاحت بلکہ بنیادی ڈھانچے، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوئی۔ صوبے کی سڑکیں، ہسپتالوں کی ناقص سہولیات اور تعلیمی اداروں کی بدحالی اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ "تبدیلی” صرف نعروں کی زینت رہی۔ معاشی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں کوئی خاص کمی نہ آئی۔ سوات جیسے سیاحتی مقامات پر ہسپتالوں کی خراب حالت اور ایمرجنسی سہولیات کی کمی نے اس سانحے کے اثرات کو اور سنگین کر دیا۔ عوام سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی نے صوبے کے وسائل کو عوامی فلاح کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا؟

دریائے سوات کا سانحہ ایک دردناک آئینہ ہے جو خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی ناکامیوں کو عیاں کرتا ہے۔ سیاح بہہ گئے، لیکن تبدیلی کہیں پیچھے رہ گئی۔ کیا صوبائی حکومت اس سانحے سے کوئی سبق سیکھے گی؟ کیا سیاحوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے سیلاب کی پیشگی اطلاع کا نظام اور موثر ہنگامی خدمات قائم ہوں گی؟ کیا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنی توجہ سیاسی مہمات سے ہٹا کر عوام کے دکھوں کی طرف موڑیں گے؟ کیا پی ٹی آئی اپنے "تبدیلی” کے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے گی یا یہ سانحہ بھی ایک اور فراموش شدہ خبر بن کر رہ جائے گا؟ جب ایک ہی خاندان کے 10 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، کیا صوبائی قیادت کے ضمیر کو کوئی جھٹکا بھی لگا؟ یہ سوالات خیبر پختونخوا کے ہر شہری کے دل میں گونج رہے ہیں اور ان کے جوابات کا انتظار سوات کے کنارے بہہ جانے والے معصوم سیاحوں کے لواحقین کی چیخیں مانگ رہی ہیں۔ کیا صوبائی حکومت ان چیخوں کو سن پائے گی یا یہ خاموشی بدستور ان کی ترجیحات کو بیان کرتی رہے گی؟

Shares: