سڈنی میں ہونے والی ماس کِلنگ نے ایک بار پھر بھارت کے مشکوک اور خطرناک سکیورٹی کردار پر عالمی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
حملے سے قبل ملزم کا آسٹریلوی پاسپورٹ پر فلپائن جانا، وہاں مبینہ عسکری تربیت حاصل کرنا، اور پھر بھارتی پاسپورٹ پر بین الاقوامی سفر کے انکشاف نے اس واقعے کو ایک منظم اور ٹرانس نیشنل سازش کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ اسی سنگینی کے پیش نظر آسٹریلوی حکام نے بھارت کے وزیرِ خارجہ سے باقاعدہ رپورٹ طلب کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شک کی سوئی اب براہِ راست نئی دہلی کی طرف جا رہی ہے۔ بھارت کا ریکارڈ اس حوالے سے پہلے ہی متنازع ہے چاہے وہ اپنے ملک میں فالس فلیگ آپریشنز ہوں یا کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ .. یہ سب ایک ایسے پیٹرن کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں بیرونِ ملک بیٹھ کر تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
سڈنی حملہ محض ایک فرد کا جرم نہیں بلکہ بھارت سے جڑے ایک خطرناک ماڈل کی عکاسی کرتا ہے۔ حملہ آور کا واردات سے پہلے فلپائن جانا، وہاں عسکری نوعیت کی تربیت لینا، اور بھارتی پاسپورٹ کے ذریعے سفر کرنا اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ یہ سب کسی منظم رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلوی حکام نے بھارت کے وزیرِ خارجہ سے وضاحت طلب کی۔ عالمی سطح پر بھارت پہلے ہی فالس فلیگ آپریشنز اور ٹرانس نیشنل کلنگز کے الزامات کی زد میں ہے، خاص طور پر کینیڈا میں سکھوں کے قتل کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے۔ سڈنی واقعہ انہی شبہات کو مزید گہرا کر رہا ہے کہ بھارت بیرونِ ملک بیٹھ کر پرتشدد کارروائیوں کے لیے افراد کو تیار کرنے کی صلاحیت اور نیت رکھتا ہے۔
سڈنی میں ہونے والی اجتماعی ہلاکتیں بھارت کے اس خفیہ سکیورٹی کھیل کا تسلسل معلوم ہوتی ہیں جس میں تشدد کو سرحدوں سے باہر ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حملہ آور کا آسٹریلوی پاسپورٹ پر فلپائن جانا، وہاں مبینہ عسکری تربیت حاصل کرنا، اور پھر بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کوئی حادثاتی عمل نہیں تھا۔ اسی تناظر میں آسٹریلوی حکومت کی جانب سے بھارت کے وزیرِ خارجہ سے رپورٹ طلب کرنا ایک غیر معمولی سفارتی قدم ہے۔ بھارت پہلے ہی فالس فلیگ آپریشنز اور کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ جیسے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، اور سڈنی حملہ اس پورے پیٹرن کو مزید واضح کر رہا ہے کہ تشدد کی تربیت اور رہنمائی کہاں سے آ رہی ہے۔
سڈنی ماس کِلنگ نے بھارت کے سکیورٹی بیانیے کو عالمی سطح پر بے نقاب کر دیا ہے۔ حملے سے پہلے ملزم کا فلپائن جانا، مبینہ عسکری تربیت لینا، اور بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرنا ایسے حقائق ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلوی حکام نے بھارت کے وزیرِ خارجہ سے براہِ راست رپورٹ طلب کی۔ بھارت کا ماضی اس حوالے سے پہلے ہی سوالیہ نشان ہے’ چاہے وہ اپنے ملک میں فالس فلیگ ڈرامے ہوں یا کینیڈا میں سکھوں کی ہلاکتیں۔ یہ تمام واقعات ایک ہی پیغام دیتے ہیں: بھارت نہ صرف اندرونِ ملک بیانیہ گھڑتا ہے بلکہ بیرونِ ملک تشدد کے نیٹ ورکس کو بھی خاموشی سے پروان چڑھاتا ہے۔
سڈنی میں ہونے والا خونریز واقعہ بھارت کے ٹرانس نیشنل تشدد کے ماڈل کی ایک اور کڑی بن کر سامنے آیا ہے۔ حملہ آور کا آسٹریلوی پاسپورٹ پر فلپائن جانا، وہاں عسکری تربیت حاصل کرنا، اور بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرنا اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ یہ سب کسی منظم سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے آسٹریلوی حکومت نے بھارت کے وزیرِ خارجہ سے وضاحت طلب کی۔ بھارت پہلے ہی فالس فلیگ آپریشنز اور کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کے قتل جیسے الزامات کی زد میں ہے، اور سڈنی واقعہ ان خدشات کو عالمی سچائی میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے کہ نئی دہلی بیرونِ ملک بیٹھ کر تشدد کے طریقے سکھانے اور استعمال کروانے میں ملوث رہی ہے۔








