تلہ گنگ کے ٹال ٹیکس اور اس عہد کے سلطان کی بھول
تحریر:فیصل رمضان اعوان
گزشتہ روز بلکسر سے مظفرگڑھ جانے والے سنگل روڈ پر بلکسر اور ترحدہ کے مقام پر دو عدد نئے ٹال ٹیکس لگا دیے گئے۔ تلہ گنگ و لاوہ سے کچھ دوستوں نے اس ٹال ٹیکس کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر مسلسل احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ ہم براہ راست اس احتجاج میں شامل تو نہ ہو سکے یعنی سوشل میڈیا پر اپنا حصہ نہ ڈال سکے، لیکن اس دوران بار بار خیالات میں کھوئے رہے اور ماضی کے وہ کالم، جو اس سڑک کے بننے سے پہلے لکھے تھے، سب یاد آنے لگے۔
ہم نے بارہا اس روڈ پر آئے روز حادثات پر بہت لکھا، یوں بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ ہم سب کی سنی گئی، روڈ بن گیا۔ بلکسر سے میانوالی تک اس سڑک کے ارد گرد دیہی آبادیاں ایک طویل عرصے تک ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار رہیں۔ سڑک پر چلتی ٹریفک سے اڑتے گرد و غبار سب برداشت کیے گئے۔ ان دنوں اس روڈ کو خونی اور قاتل روڈ کہا جاتا تھا۔ حادثات میں بے شمار لوگ جانوں سے گئے، زخمی اور معذور افراد کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
ابھی ہم نئے ضلع کے قیام کی خوشیاں منا ہی رہے تھے، جو ابھی مکمل بھی نہیں ہے، کہ ہمارے ان دیہی علاقوں میں پیلے رنگ کے وہ ٹال ٹیکس کے ڈبے پہنچا دیے گئے جنہیں ہم اپنی ترقی بھی سمجھتے ہیں۔ ہم ایک دم سے ترقی پذیر علاقوں سے نکل کر ترقی یافتہ دور میں داخل ہو گئے۔ ایم ٹو موٹروے بلکسر انٹرچینج سے باہر نکلتے ہی تلہ گنگ کی جانب ایک اور ٹال پلازہ دیکھ کر ہم تو خوشی سے نہال ہو گئے، بلکہ مارے خوشی کے نڈھال بھی ہوئے۔
اتنی تیز ترین ترقی! قارئین کرام، اتفاق سے اس نئی پیش رفت کے دوران ہمارا یہاں سے گزر ہو چکا ہے۔ بلکسر انٹرچینج سے بلکسر ٹال پلازہ اور پھر اپنے ترحدہ کو تصور میں لے کر آگے بڑھتے رہے کہ اب تو ماشاءاللہ ترحدہ بھی بارونق ہو گیا ہوگا۔ چشم تصور میں ہم کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئے جبکہ ٹال پلازہ ترحدہ چوک پر نہیں بلکہ تلہ گنگ کی جانب اتنی دور ہے کہ چوک سے نظر ہی نہیں آتا۔
یہاں پہنچ کر ہمیں کچھ رنج ضرور ہوا اور ایک خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پیلے ڈبے عین ترحدہ چوک میں ہوتے تو مزہ دوبالا ہو جاتا۔ لیکن چلیں خیر ہے، وہ ڈبے اتنے دور بھی نہیں ہیں۔ اپنی اس خواہش کو ہم یوں ہی راضی کر لیتے ہیں۔ ان ٹال ٹیکس سے ہم غریب لوگ تو براہ راست متاثر ہی نہیں ہیں۔ ہم نے کون سا پیدل گزر کر ٹیکس ادا کرنا ہے۔ پیدلوں کا ٹال ٹیکس کہاں ہوتا ہے؟ باقی فراٹے بھرتی گاڑیوں والے بھلا ساٹھ روپے کو کیا مشکل سمجھتے ہیں۔ وہ تو ساٹھ روپے کی قدر و قیمت ان دیہی علاقوں کے غریبوں سے جا کر پوچھیں، جو ان ٹال ٹیکس پلازوں کے قیام کے بعد دال، آٹا، چینی میں ٹال ٹیکس دیں گے۔
ان پسماندہ علاقوں کو شروع سے ہی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور مزید پستیاں ہمارے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ ہکلہ راولپنڈی سے ڈی آئی خان تک بننے والے سی پیک M14 نے اس روڈ کی حالت ویسے بھی پتلی کر دی ہے۔ پہلے اس بین الصوبائی روڈ پر بے تحاشا رش تھا، اب وہ بھی نہیں رہا۔ یہاں صرف مقامی، علاقائی لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔ یہاں سے گزرنے والی ایک بڑی تعداد اب ہماری شمالی پٹی، جو سی پیک M14 کا مغربی روٹ کہلاتا ہے، وہاں سے گزر جاتی ہے، جو بدقسمتی سے ہمارے عقب میں ہے، سامنے نہیں۔ ہم اس شمالی بین الاقوامی سڑک سے مکمل استفادہ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔
ہیوی ٹرانسپورٹ، جس سے بہت سے لوگوں کا روزگار منسلک ہوتا ہے، وہ دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک حصہ سی پیک اور دوسرا حصہ ایم ٹو موٹروے سے فیصل آباد M4 سے ملتان اور آگے کراچی کی طرف۔ اب میانوالی سے تلہ گنگ، چکوال اور چکوال سے تلہ گنگ، میانوالی بس یہاں یہی کچھ رہ گیا ہے۔
اس علاقے کی بدقسمتی دیکھیں کہ یہاں کوئی مضبوط اور توانا آواز بھی نہیں ہے، جو بول سکے، جو اپنے لوگوں کی مشکلات کا ذکر کر سکے۔ اور اس سے آگے والوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ یہاں کے کسی مقامی رہنما نے شاید اپنی نسل کا تو ضرور سوچا ہوگا، لیکن ان غریبوں کی نسل کا کون سوچے گا؟ ان علاقوں کی خاطر خواہ ترقی کے لیے آج تک کچھ کیا گیا؟ کچھ بھی نہیں۔
یہ ٹال ٹیکس کا تحفہ بھی ہمارے نصیب کے کھاتے میں ڈلوا کر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ یہ مقامی دیہی آبادی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔ ساغر صدیقی کا ایک شعر یاد آ گیا:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
یہاں سلطان کی کچھ بھول نہیں ہے، بلکہ سلطان سب بھول گیا ہے۔ وسائل سے محروم ان علاقوں کی صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات کا بحران ایک طرف اور ٹال ٹیکس کے اضافی بوجھ کے یہ "خوبصورت ترقی کے ضامن” (میرے نزدیک) پیلے ڈبوں کا تکلیف دہ تحفہ یہاں کے باسیوں کے لیے ایک نئی مشکل کا سبب بنے گا۔
بنیادی طور پر یہاں ایک مشکل زندگی پائی جاتی ہے۔ لوگ حلال روزی کے لیے دن بھر محنت مزدوری اور مشقت کرتے ہیں۔ اس سے اپنے بچوں کا پیٹ پالا جاتا ہے۔ ایسی غریب بستی والوں کے دکھوں میں اضافہ ایک رہزن کی سوچ تو ہو سکتی ہے، کسی مسیحا کی نہیں۔
اس عہد کے سلطان سے گزارش ہے کہ رعایا پر رحم کیا جائے اور مزید پسماندگی میں دھکیلنے کا پروگرام منسوخ کیا جائے۔ یہ ٹال ٹیکس وسائل سے محروم ان پسماندہ ترین علاقوں سے ختم کیے جائیں۔