وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دورہ روس اس وقت دنیا بھر میں talk of town بن چکا ہے ۔ وجہ اس کی یہ نہیں کہ پاکستان اس تنازعہ میں کوئی اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ دورہ شروع ہونے سے صرف ایک دن پہلے ہی حالات اس تیزی سے بدلے ہیں ۔ کہ اب مشرق اور مغرب کی نظریں ہم پر لگ گئی ہیں کہ ہم اس تنازعہ میں کیا موقف اپناتے ہیں۔ کیونکہ اپنی کمزرویوں کے باوجود بہرحال ہم ہیں تو ایک ایٹمی طاقت اور مسلمان دنیا کا ایک اہم ملک ۔
۔ اس وقت جہاں روسی صدر پیوٹن نے اپنے پتے شو کروادیے ہیں تو دوسری جانب یوکراین کے وزیر دفاع نے اعلان کردیا ہے کہ جنگ کے لیے تیار رہیں جس میں سختیاں بھی ہوں گی نقصان بھی ہوگا لیکن ہمیں درد کو برداشت کرتے ہوئے خوف اور مایوسی پر قابو پانا ہے۔ دراصل انھوں نے طبل جنگ بجا دیا ہے ۔ کیونکہ ان کی انتہائی جذباتی پوسٹ نے سیکیورٹی اہلکاروں کے لہو کو گرما دیا ہے ۔۔ یوں یہ کہنا ہے کہ یوکرائن کے بحران نے ایک نیا رخ اِختیار کرلیا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔۔ اب یوکرائنی وزیر دفاع کے بیان کے بعد عین ممکن ہے کہ عمران خان کے دورہ روس کے دوران ہی روس اور یوکرائن کی جنگ چھڑ جائے ۔ اس لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ عمران خان کی سفارت کاری اور statesmanship کا بھی امتحان ہے ۔ کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے مفادات میں فیصلہ کیا جائے ۔ کیونکہ پاکستان خود سفارتی محاذ پر بہت سے اہم مسائل کا شکار ہے ۔ جہاں ایک جانب ایف اے ٹی ایف کا معاملہ ہے تو بھارت کی مسلسل جارحیت کا بھی سامنا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کا معاملہ بھی آپکے سامنے ہے ۔ پھر ایک جانب امریکہ ہے تو چین کی صورت میں امریکہ کے سامنے خطے میں ایک اور طاقت موجود ہے۔ سی پیک کی شکل میں چین گوادر تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی بدحالی کا بھی براہ راست اثر ہم پر ہے ۔ پھر نیٹو کی شکل میں پورا یورپ اس تنازعہ کا اہم فریق ہے اور سب جانتے ہیں کہ ہماری زیادہ تر ایکسپورٹس کا دارومدار یورپ اور امریکہ کی منڈیاں ہیں ۔ اسکے علاوہ ہم آئی ایم ایف کے چنگل میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس سے آزاد ہونا ممکن نہیں دیکھائی دیتا۔ یوں وقت کا تقاضا ہے کہ عمران خان اور ریاست پاکستان کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت صرف اور صرف اپنے مفادات کا سوچے ۔
۔ اب دیکھنا ہے عمران خان روس سے کیا لے کر آتے ہیں۔ اور کیا دے کر آتے ہیں ۔ ۔ دوسری جانب تجزیہ کیا جائے تو یوکرائن روس کے مقابلے میں ایک کمزور بچہ دیکھائی دیتا ہے ۔ پر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کمزور بچے کی پشت پر بہت بڑے بڑے پہلوان کھڑے ہیں ۔ جو نہ اس بچے کو پیچھے ہٹتے دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی گرنے دینا چاہتے ہیں ۔ ۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی گیس فروخت کرنے والا ملک روس ہے۔ اس کے بعد قطر اور ناروے کا نمبر ہے۔ پھر سب سے زیادہ تیل فروخت کرنے والا ملک امریکا ہے۔اس کے بعد روس اور سعودی عرب کا نمبر ہے۔۔ روس یورپ کی پینتیس فیصد گیس ضروریات پوری کرتا ہے۔سب سے بڑا خریدار جرمنی ہے۔اس کے بعد اٹلی ، ترکی ، آسٹریا ، فرانس ، پولینڈ ، ہنگری اور سلواکیہ کا درجہ ہے۔ روسی گیس کے خریداروں میں بلجیئم ، ڈنمارک ، فن لینڈ ، ہالینڈ ، برطانیہ ، یونان ، سوئٹزر لینڈ ، بوسنیا ، کروشیا ، بلغاریہ ، چیک جمہوریہ ، سلووینیا ، سربیا اور رومانیہ بھی شامل ہیں۔یوں صرف گزشتہ سال روس نے چار سو نوے بلین ڈالر کی اشیا دنیا کو فروخت کیں۔ جس میں بڑا حصہ تیل اور گیس کا تھا ۔ ۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ تو ان دونوں کا تو نقصان جو ہوگا سو ہو گا۔ مگر اس جنگ کے بدلے اگر یورپ اور امریکا روس کا معاشی بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ جس کے واضح اشارے مل رہے ہیں تو پھر روسی تیل، گیس اور غلہ بھی باقی دنیا تک نہیں پہنچتا۔ اور پابندیوں کے بعد جب خام تیل کی قیمیتں مزید اوپر جائیں گی تو سوچئے کہ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کا کیا ہوگا جو پہلے ہی تیل ، گیس اور اناج کی بڑھتی قیمتوں کے سبب معاشی طور پر دیوالیہ ہوا پڑا ہے ۔
۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی صرف خبروں کی بنیاد پر ہی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت
97 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کرگئی۔ عالمی ادارے Fidelity انٹرنیشنل کے مطابق تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ پھر لندن اور ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں مندی دیکھنے میں آئی ہے اور خدشہ ہے کہ امریکا میں بھی یہ رجحان جاری رہے گا۔۔ آسٹریلیا نے حالات کے پیشِ نظر یوکرائن میں اپنے سفارتی عملے کو رومانیہ اور پولینڈ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے اُنہیں وطن واپس بھیجا جائے گا۔ تو بھارت نے بھی اپنے 20 ہزار سے زائد شہریوں کو یوکرائن سے نکالنے کے لیے آج صبح خصوصی پرواز روانہ کر دی ہے۔۔ فی الحال روس کے گزشتہ روز کے اعلانات کے درعمل میں برطانیہ نے روس کو خبردار کیا ہے اور روس کے پانچ بینکوں پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ۔ توکہا جا رہا ہے کہ امریکا بھی آج کسی وقت روس پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرسکتا ہے۔۔ پھر امریکا مغربی میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے روس کو جارح ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ۔ تنازعہ کی جڑ یہ ہے کہ امریکا یوکرین کو نیٹو ممالک کی تنظیم میں شامل کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنے دور مار ایٹمی میزائل یوکرائن کی سر زمین پر نصب کر کے روسی سلامتی کو براہ راست خطرے میں ڈال دے جس کی روس کبھی بھی اجازت نہیں دے گا۔۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکا کی عالمی بالا دستی خطرے میں ہے۔ یاد کریں 15 اگست 2021 کو کابل سے امریکی فوج کے انخلاء پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ امریکا اب عالمی طاقت نہیں رہا۔ روس ، چین اسٹرٹیجک اتحاد بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ۔ ایک وقت تھا کہ امریکی سازشوں نے سویت یونین اور چین میں دشمنی پیدا کر دی تھی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکا کبھی دنیا کی واحد سپر پاور نہ بن سکتا۔ اس طرح چین کو سوویت یونین سے دور کر کے امریکا نے سوویت یونین کو افغانستان کے پہاڑوں میں گھیر کر آسانی سے شکست دے دی۔
۔ اب تو صورتحال بالکل مختلف ہے کہ امریکی اتحادی بھی اسے عالمی طاقت ماننے کے لیے تیار نہیں تو دوسری طرف چین امریکی ماہرین کے مطابق اگلے چند سالوں میں امریکا کی جگہ لیتے ہوئے دنیا کی نمبر ون معاشی طاقت بننے والا ہے۔ دوسری طرف روس ہے جو جنگی میدان میں امریکا کے لیے بڑا خطرہ بننے والا ہے۔ امریکی جریدے scientific american کی رپورٹ کے مطابق مستقبل کی لڑائی میں روس کی نئی صلاحیتوں کو روبوٹک ہتھیاروں اور طویل فاصلے تک مار کرنیوالے حملوں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ جس میں فضائی اور خلائی حملوں سمیت میزائل شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس کئی اہم جنگی شعبوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ ۔ بات یہ ہے کہ روس اور چین نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ کس طرح امریکا نے ماضی میں دونوں ملکوں میں اختلافات اور دشمنی پیدا کر کے دنیا پر غلبہ پایا۔۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ امریکا ہر اس ملک کا دشمن ہے جو اس کی عالمی بالا دستی کو چیلنج کر سکتا ہو۔ چاہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہو یا عسکری معاشی معاملات میں۔ مگر دیوار پہ لکھا سچ یہ ہے کہ امریکا کی اس طویل بالا دستی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ ۔ اسی طرح حالیہ سفارتی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی کا رویہ امریکہ کے رویے سے مختلف ہے اور جرمنی کے اَہم معاشی مفادات کارفرما ہیں۔ اَمریکہ کے نزدیک روسی صدر پیوٹن کے سیاسی اور معاشی عزائم کو روکنا اولین ترجیح ہے جِس کے لیے مغرب کے سامنے روس کے عزائم کو ایک بڑھتے ہوئے خطرہ کے طور پر پیش کرنا ہے جِس کا اِس وقت سدِباب ناگزیر ہے جبکہ یورپ خاص طور پر جرمنی کو گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس سے گیس درکار ہے۔
۔ پھر جرمنی اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون سے بھی امریکہ، یوکرائن سمیت چند یورپی ممالک ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے خائف ہیں۔ ۔ اسی لیے امریکہ اپنے سٹریٹجک مفادات پر ضرب لگنے کے خطرات کے پیشِ نظر روس اور جرمنی کے مابین ہونے والے گیس منصوبے کو آپریشنل ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ یوکرائن کے موجودہ بحران کے جنم لینے سے بھی پہلے امریکہ نے اس منصوبے پر پابندیاں لگا دی تھیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ صدر بائیڈن کی اِنتظامیہ نے مئی 2021 میں دو اَہم پابندیاں ختم کردی تھیں ۔ ۔ اپنی بات میں اس پوائنٹ پر ختم کروں گا کہ چین اور روس کا اسٹرٹیجک اتحاد امریکی عالمی بالا دستی کے لیے موت کا پیامبر ہے۔