تبدیلی ہی تو مانگی تھی تحریر : سیف الرحمان

انسان بھی کیا چیز ہے۔ جب کمزور ہوتا ہے تو کمزروں کو بازو بنا کر کمزوں کے حق کی بات کرتا ہے ۔ جب طاقت میں ہوتا ہے طاقتوروں کو ساتھ ملا کر کمزوں کا خون نچوڑنے کی تدبیریں کرتا ہے۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ شروع شروع میں مجھے اس بات کی سہی سمجھ نہیں آئی لیکن پھر اﷲ بلا کرے عمران خان کا جنہوں نے ہمیں سیاسی شعور دیا۔  
خان صاحب نے تبدیلی کے نام پہ نوجوانوں سے ووٹ مانگا۔ نوجوانوں نے خان صاحب کو تبدیلی لانے کیلئے مکمل تعاون کیساتھ ساتھ ووٹ بھی دیا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی چلی گئی۔ نوجوانوں میں آہستہ آہستہ مایوسی کے بادل چھانے لگے۔ اس کی وجہ خان صاحب کے وزیراعظم بننے سے پہلے کے وہ دعوے  اور وعدےہیں جو انہوں نے اپنی قوم کیساتھ کئے۔اب خان صاحب چاہ کر بھی ماضی سے جان نہیں چھڑا سکتے۔
کیا خوب کہا کسی شاعر نے
یاد ماضی غذاب ہے یا رب______چھین لے مجھ سے میرا
خان صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جب تحریک انصاف پاور میں آئے گی تو لوگ باہر سے نوکریاں چھوڑ کر  پاکستان آئیں گے۔  سبز پاسپوٹ کی دنیا میں عزت کی بات کیا کرتے تھے۔  ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی ابھی تک ادھورا  پڑاہے۔  پچاس ہزار مفت گھر دینے کا وعدہ بھی  وفا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کیلئے خان صاحب نے کبھی ملائیشیاء ماڈل  بنانے کی بات کی تو کبھی چینی ماڈل کو ترقی کیلئے اہم قرار دیا کبھی ایرانی انقلاب لانے کی باتیں کی تو کبھی ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا کبھی ترکی کی آذاد خیالی سے متاثر ہوئے تو کبھی  یورپ کی مثالیں دیں۔لیکن ان بلنددعوؤں میں  پاکستانی عوام کو کیا ملا؟
آج جب خان صاحب اقتدار کے تین سال پورے کر چکے اور ماشاءاﷲ چوتھا سال شروع ہے تو کوئی بتا سکتا ہے پاکستان میں اس وقت کونسا ماڈل چل رہا ہے؟ 
 عوام کو تو سوائے مہنگائی اوربیروزگاری  کے کچھ نہیں ملا۔ اگر کچھ ملا ہے تو بتائیں۔  آپ کسی بھی چیز کے ریٹ سابقہ کرپٹ حکمرانوں کے دور سے ملا لیں موجودہ حکومت سے کم ہی  ہوں گے۔پیپلز پارٹی جیسی کرپٹ ترین حکومت کے دور میں بھی اس شرع سے مہنگائی نہیں تھی۔ خان صاحب عوام کوسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑاؤ سے کوئی غرض نہیں۔ آپکی درآمدات اور بر آمدات سے بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ کی پناہ گاہوں کا بھی فائدہ کچھ افراد کے علاوہ اکثریت کو نہیں۔ عوام کو سستا آٹا چاہئے۔ سستا گھی چاہئے سستی چینی چاہئے ۔ سستی دالیں اور صابن چاہئے۔ وہ آپ کی حکومت ابھی تک دینے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ وقت نکال کر اس بارے لازمی سوچیں۔ کیونکہ اگلے الیکشن میں ان ہی غریب لوگوں نے ووٹ دینا ہے۔ 
خان صاحب اقتدار سے بہتر تھا آپ اپوزیشن میں رہتے۔ آپ کی تبدیلی کا آسرا تو تھا۔ اگر آپ تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئے تو عوام کس کے در پہ دستک دے گی؟  کیا پھر وہی نواز اور ذرداری ہمیں نوچیں گے؟ کیا ہمارے نصیب اتنے ہی برے ہیں کہ بلاول جیسا دودھ پیتا  بچہ ہمارا حکمران بننے کو تیار بیٹھا ہے یا مریم جیسی بدزبان اور بداخلاق عورت ہم پہ حکمرانی کرے گی؟  
خان صاحب آپ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ عوام کو سستا اور فوری انصاف انکی دہلیز پہ ملے گا۔غریب خوشحال ہوگا اور مہنگائی کا جن ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بوتل میں بند کر دیا جائے گا۔  لیکن حالات پہلے سے بھی ذیادہ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔  ایسا لگ رہا ہے جیسے  اقتدار میں بیٹھے چہرے بدلے ہیں  کام وہی ہو رہے ہیں جیسا سابقہ حکمران کیا کرتے  تھے۔وہی پرانی رسم ورواج وہی بیان بازی وہی اداروں کو مورد الزام ٹھہرانا ۔ ہاں کرپش کی حد تک تبدیلی ضرور نظر آئی ہے۔ موجودہ دور میں سابقہ ادوار کی نسبت کرپشن کی شرع بہت کم ہے۔   اس پہ آپ کی حکومت قابل تعریف ہے۔
تحریک انصاف کے پاس وقت کم  اور مقابلہ سخت ہے۔ اس کم عرصے میں پاکستان شاہد ایشیائی ٹائیگر تو نہ بن سکے لیکن اتنا ضرور ممکن ہے کے سبز پاسپوٹ کو دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھ سکے۔ آپ کی عوام مہنگائی تلےمذید پسنے سےبچ جائے   ۔ آپ گھر اور نوکریاں بیشک نہ دیں  لیکن ایسے حالات تو پیدا کر دیں کہ  لوگ  خود اپنا کاروبار شروع کر کے باقی  بیروزگاروں کو نوکریاں مہیا کر سکیں۔ کامیاب نوجوان پروگرام  سکیم کی بجائے ڈائریکٹ  نوجوانوں کو بغیر سود قرض دیں۔ دیلیز پہ انصاف نہ بھی ملے چلے گا لیکن جسٹس سسٹم میں ریفارمز کر دیں تا کہ ججز سالوں کیس چلانے کی بجائے تین سے چھ ماہ میں فیصلے کرنے کے پابند ہو جائیں۔ پولیس ویشی کی بجائے عوام کی محافظ بن جائے۔ ڈاکٹر مسیحا بن جائیں اور سرکاری افسران نوابوں کی بجائے عوام کی خدمت کرنے لگ جائیں۔
اس وقت عوام میں تاثر بنا ہوا ہے کہ وزیروں کی فوج اور مشیروں کی موج لگی ہوئی ہے۔خان صاحب ہوش کے ناخن لیں  عوام کیساتھ تبدیلی کے نام پہ دھوکہ ہونے جا رہا ہے۔ مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ پستہ ہی چلا جا رہا ہے۔ خان صاحب ان وزیروں مشیروں کو رکھنے کا فائدہ جب آپ کی عوام مہنگائی کی وجہ سے رو رہی ہے۔  بیشک صحت انصاف کارڈ آپ کا وہ کارنامہ ہے جو اگر کامیاب ہو گیا تو عوام کی تقدیر ہی بدل جائے گی لیکن چند  پرائیویٹ ہسپتال جان بوجھ اسکو ناکام بنانے کی  کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اپنی ٹیم کو متحرک کریں۔    ایسے تمام ہسپتالوں کو سیل کر دیں جو صحت انصاف کارڈ پہ علاج سے انکار کریں۔
خان صاحب ایک بات ذہن نشین کر لیں ۔ آئندہ عام انتخابات میں آپ کا مقابلہ مہنگائی سے ہونے جا رہا ہے۔اگر آئندہ عام انتخاب تک مہنگائی کا پلڑا بھاری رہا تو آپ کی شکست کنفرم  ہےاور اگر آپ نے 2023الیکشن سے پہلے مہنگائی میں %30تک بھی قابو پا لیا تو شاہد آپ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں۔ اپوزیشن کی خاموشی مہنگائی کی جیت کی وجہ ہے۔ اپوزیشن نے آپ کو مہنگائی جیسے  مضبوط جن کے آگے پھینک دیا ہے۔اس کی مثال آپ کےتین سالہ دور اقتدار میں چوتھا وزیر خزانہ کی آمد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بیشک موجودہ وزیر خزانہ  شوکت ترین  صاحب قابل احترام اور بزرگ کاروباری شخصیت ہیں لیکن یاد رکھنا وہ اپنا بینک چلانے میں نا صرف ناکام ہوئے بلکہ فروخت کر کے آئے ہیں۔ ذرا بچ کے کہیں شوکت ترین کا تجربہ آپ کے اقتدار کو بھی نہ لے ڈوبے۔

@saif__says 

Comments are closed.