تبدیلی کو جگتیں،تحریر: اعجاز الحق عثمانی

"تبدیلی” لفظ جتنی دفعہ ہمارے وزیراعظم عمران خان کے منہ سے نکلا ہے۔ شاید اتنی دفعہ آج تک پوری دنیا میں بھی یہ لفظ نہ بولا گیا ہو۔ عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آئے تو انہوں یہ وعدہ پورا کرکے بھی دیکھایا اور آج تک پورا کر بھی رہے ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

کبھی وزیر کی تبدیلی۔۔۔۔

کبھی مشیر کی تبدیلی۔۔۔۔۔

کبھی پالیسی کی تبدیلی۔۔۔

خان صاحب نے آغاز ہی ایسی بڑی  بڑی تبدیلیوں سے کیا۔اور ابھی تک چھوٹی تبدیلیوں کی باری ہی نہیں آرہی۔ آج بھی 

چھوٹی تبدیلیاں  بنی گالا میں قطار بنائے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔ 

ان سب تبدیلیوں کو ایک ڈیجیٹل نام ” یو ٹرن” دیا گیا۔ اور انکی نظر میں یوٹرن کا کامیابی کے پیچھے اتنا ہی بڑا کردار ہے جتنا کسی زمانے میں ہر کامیابی کے پیچھے عورت کا ہوا کرتا تھا۔ کنٹینر پر خطابات سن سن کر عوام کو یوں لگتا تھا کہ

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت

چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

  مگر اب عوام تبدیلی کو جگتیں کرتی نظر آتی ہے۔ کل بارش کی ٹھنڈک نے پکوڑے کھانے کی دل ناداں میں آگ لگائی تو سرگودھا کی ایک  پکوڑوں والی معروف چاچے بھٹو کی دکان کا رخ کیا۔ سرگودھا والوں کے چندا اور ہمارے حفیظ (کرکٹر) بھی کسی زمانے میں چاچے بھٹو کے پکوڑے کھاتے رہے ہیں اور خوب شیدائی تھے۔  جیسے ہی پہلا پکوڑا سپردِ منہ کیا تو نظر ریٹ لسٹ پر پڑی ، جس کے آغاز ہی میں لکھا ہوا تھا۔ ” گھبرانا نہیں ہے، 30 اگست سے سموسہ 30 روپے کا ملے گا”۔ایک کریانہ سٹور پر جانا ہوا۔ مصوف نے لکھ رکھا تھا۔” نواز شریف کے دوبارہ وزیراعظم بننے تک اور عمران خان کے وزیراعظم رہنے تک ادھار بند ہے”۔زلفوں کی تراش خراش کےلیے شام کو ایک حجام کی دکان جانا ہوا۔ دکان کو لگا تالا دیکھ کر ادھر ادھر دیکھا تو دکان کے دروازے پر چپکے ایک بینر پر لکھا ہوا تھا۔” تبدیلی تو نہیں آئی ۔مگر ہم نے یہاں سے دکان تبدیل کر لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”اور اب پیش خدمت ہے ایک شاعر کی تبدیلی کو کی گئی جگتیں 

بھنگڑے پہ اور دھمال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

واعظ کے قیل و قال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

شادی کے بارے میں کبھی نہ سوچنا چھڑو

سنتے ہیں اس خیال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

ہے جس حسین کے گال پہ ڈمپل کوئی کہ تِل

ہر اس حسین کے گال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

کھانے کے بعد دانتوں میں تِیلا نہ پھیرنا

دانتوں کے ہے خِلال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

کرتی ہے جو ماسیاں دس دس گھروں میں کام

ان ماسیوں کے بھی مال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

جنگل میں مور ناچا تو آئے گا اس کو بِل

اب مورنی کی چال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

کھانا کسی کو کھاتے ہوئے دیکھنا بھی مت

کیونکہ اب تو رال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

بچے تو پہلے دو ہی تھے اچھے مگر یہ کیا

اب ایک نونہال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

سنڈے کے سنڈے ملتے تھے ہم مفت میں مگر

اب یار سے وصال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

کہتے ہیں اس سے بات نہ کرنا بغیر فیس

بیگم سے بول چال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

 اعلان یہ غریبوں کی بستی میں کل ہوا

مردوں اب انتقال پہ بھی ٹیکس لگ گیا

کیوں اتنے ٹیکس لگ گئے پوچھا جو یہ سوال

گیلانی اس سوال پہ بھی ٹیکس لگ گیا 

اعجازالحق عثمانی 

@EjazulhaqUsmani

Comments are closed.