یہ بات ایک حقیقت ہے کہ نہ صرف ہمارا معاشرہ بلکہ پوری دنیا میں خواتین سائنس کے شعبے میں کم نظر آتی ہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ خواتین کو سائنس
ہماری اس کائنات میں کھربوں ستارے ہیں جن میں سے سورج بھی ایک عام سا ستارا ہے۔ جس طرح سورج کے گرد آٹھ سیارے (جن میں زمین بھی شامل ہے)،
زمین پر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ایسے شہابیے گرتے رہتے ہیں جو اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ فضا میں رگڑ کھانے کے باوجود زمین کی سطح تک پہنچ
ستارہ دراصل ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیس کے بنے ہوتے ہیں۔ ایک عمومی ستارے میں ہائیڈروجن کے دو ایٹم ملکر ہیلیئم کا ایک ایٹم بناتے ہیں اور اس عمل کو فیوژن
ڈاکٹر عبدالسلام کی برسی پر اُنکی خدمات پر پوسٹ کی تو چند لوگوں نے کمنٹ میں خصوصی طور پر کہا کہ محسنِ پاکستان پر بھی کچھ لکھوں تو لیجیے معلومات
ناسا کا آرٹیمیس پراجیکٹ جسکا مقصد 2024 میں دوبارہ سے انسان کو چاند پر بھیجنا ہے۔اس پراجیکٹ کے کئی مراحل ہیں جن میں سے پہلا مرحلہ اس ٹیکنالوجی کا ٹیسٹ
زمین کے جنوبی قطب پر موجود چھٹا برِ اعظم انٹارکٹیکا جہاں سارا سال برف رہتی ہے اور درجہ حرارت منفی 60 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی نیچے چلا جاتا ہے
انسانی نسل کو کئی قدرتی آفات کا سامنا صدیوں سے رہا ہے۔ ان میں زلزلے ، طوفان، سیلاب، آتش فشاں، وغیرہ سب شامل ہیں مگر دو قدرتی آفات ایسی ہیں
ہم اور آپ ہر روز گوگل میپ کے استعمال سے راستے تلاش کرتے ہیں۔ اپنے موبائل فون میں گوگل میپ کی ایپ نکالی، لوکیشن آن کی اور ایک جگہ کا
ہماری کائنات میں ایک اندازے کے مطابق زمین پر ریت کے ذروں سے بھی 26 گنا زیادہ ستارے ہیں یعنی یہ تعداد کھربوں میں ہے۔ کائنات اربوں نوری سالوں پر








