یہاں ذکر کسی ایسے خواب کا نہیں جس میں کوئی عاشق اپنے محبوب کے دیدار کا طلبگار ہو بلکہ یہاں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے اس عظیم خواب کے متعلق بات کی جا رہی ہے جو بظاہر مکمل ہونے کے باوجود بھی ادھورا ہے ہم آج تک یہی سنتے پڑھتے اور فخر انداز میں اپنی نسلوں کو بتاتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم کی ان تک کوششوں نے اسے تعبیری شکل دی بلاشبہ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن ہم اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ خواب اقبال کا مقصد کیا تھا؟ اس میں چھپا راز کیا تھا؟علامہ اقبال کے خواب کا مقصد محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہ تھا بلکہ ایک ایسی ازادانہ ریاست کا حصول تھا جو مسلمانوں کے تابناک مستقبل کی ضمانت اور امن کا گہوارہ تھی چونکہ اس وقت مسلمان نہایت پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور اور ظلمت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لہذا شاعر مشرق نے اپنی پرایمان شاعری کلام اور تصانیف کی بدولت مسلمانوں میں جذبہ ایمانی اور بیداری کی نئی روح پھونکی۔
قائد اعظم نے بھی جب مسلمانوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم اور غلامانہ زندگی گزارتے دیکھا تو ان کے لیے الگ وطن حاصل کرنے کا مطالبہ کیا شاعر مشرق کی شاعری مسلمانوں میں جوش ولولہ پیدا کرنے میں اتش فشاں ثابت ہوئی قائد اعظم کے دن رات کی محنت انکن اور سینکڑوں قربانیوں کے بعد بالاخر الگ وطن حاصل کرنے میں کامیابی ملی جو بلاشبہ تاریخ میں لکھی جانے والی مسلمانوں کی عظیم فتح ثابت ہوئی۔مگر وقت کا پہیہ چلا دشمنوں نے دم سادنا شروع کیا اور نئی سازشیں پنپنے لگیں ریاست پاکستان سے کچھ ضمیر فروشوں نے دشمنوں کے ہاتھوں محض چند روپوں کی خاطر اپنے ایمان بیچ ڈالے اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کی غلامی قبول کر لی یہی ضمیر فروش پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے گرہن ثابت ہوئے اور نتیجہ تن مسلمان الگ آزاد وطن حاصل کرنے کے باوجود بھی اسی ذلت غلامی گمراہی اور بدحالی کے اندھے کنویں میں جا گرے جس سے چھٹکارا حاصل کیا تھا۔وہ ریاست جہاں اقبال کی شاہینوں نے فلک تک اڑان بھرنی تھی اپنی خودی کو پہچاننا تھا اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے پوری دنیا میں لوہا منوانا تھا کائنات کو مسخر کرنا تھا اور ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کرنی تھیں اسی ریاست میں اقبال کے شاہینوں کے پر نوچ لیے گئے ان کی ذہانت وہ بصارت کی تیزی پر سیاہ پٹی باندھ دی گئی اور وہی غلامانہ شکنجے میں جکڑ دیا گیا اور گمراہی کے اندھیرے راستوں پر بھٹکا دیا گیا کہ انہیں اپنی تباہی کا احساس تک بھی نہیں ہونے دیا جا رہا ہے، ترقی کی منزلیں طے کرنا تو دور کی بات ہے مفلوج نظام کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگ آے راشن کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد ایک تھیلا آٹا حاصل کر لینا ہی اپنے لیے کامیابی سمجھتے ہیں بے نظیر انکم سپورٹ احساس پروگرام اور دیگر خیراتی فنڈز کے حصول کے لیے یونین کونسل کے متعدد چکر لگانا اور کچھ ہزار روپے حاصل کر لینا بھی آج کے مسلمانوں کی جیت ہے جبکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غریب عوام ان کے حصول کے لیے ابھی نہیں جانتا اوپر لگا رہے ہیں جیسا کہ میرپور میں آے کا تھیلا حاصل کرنے کے لیے ایک شخص اپنی جان سے ہاتھوں بیٹھا اور یہ واقعہ پر نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے کی افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں کہیں کوئی خاتون اور کہیں کوئی بچہ محض آے کا تھیلا راشن یا چند خیراتی روپیہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو پسماندگی کی انتہا ہے صبح سے شام تک لمبی لمبی قطاروں میں لگے رہنا اور دھکے کھانے کی جو اذیت اور خواری ہے اس کا تو پوچھیے ہی مت۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی اقبال کے شاہین اعلی تعلیمی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی اسی خواری کا سامنا کرتے ہیں جو آٹے راشن کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے کسی ملازمت کے حصول کے لیے فارم بھرنے سے شروع ہونے والا سفر انٹرویو کے لیے کئی گھنٹے انتظار اور متعدد ٹیسٹوں سے گزرنے کے بعد ناکامی پر اختتام پذیر ہوتا ہے کیونکہ اعلی ملازمتوں کا کوٹا آتے ہی بااثر لوگوں کے عزیزوں اور رشتہ داروں یا چیلے چمچوں کی ملکیت بن چکا ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے باصلاحیت پڑھے لکھے نوجوان رکشہ چلانے ریڈی ٹھیلے لگا کر اپنا پیٹ پالنے کے علاوہ کسی ادارے میں چپڑاسی یا چوکیدار بننے پر مجبور ہے غربت بے روزگاری بھوک اور فلاس کا عالم یہ ہے کہ اکثریت لاشعوری اور گمراہی کے راستوں پر چلتے ہوئے سٹریٹ کرائمرز بن چکے ہیں اور انہیں بھٹکے ہوئے لوگوں کا بھرپور استعمال بڑے بڑے گینگز کے سرغنے منشیات فروش اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ بخوبی کر رہے ہیں۔بے بس اور مجبور لوگ اپنے اور اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کی خاطر اور حصول پیسہ کی خاطر غیر قانونی طور پر ڈنکی لگا کر یورپ جانے کو ترجیح دے رہے ہیں یہ وہ مجبور طبقہ ہے جو انسانی سمگلنگ کرنے والے گروہوں کے ہاتھ چڑھ کر اپنی جا نوں کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کر رہا ہے حالیہ پیش انے والے تارکین وطن کی کشتیاں ڈوبنے والے واقعات میں زیادہ تر تعداد پاکستانیوں کی ہی پائی جا رہی ہے جو نہایت افسوسناک ہے۔اس کے علاوہ غربت کے مارے لوگ زہریلی گولیاں کھا کرنے پنکھے سے جھول کر نہروں میں کود کر اپنی زندگیوں کے چراغ گل کر رہے ہیں۔یہ ہے آزاد خود مختار ریاست کے مسلمانوں اور اقبال کے شاہینوں کی بدحالی کی داستان جسے پڑھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کا خواب ظاہر مکمل ہو کر بھی ادھورا ہے اور تکمیل خواب ابھی باقی ہے۔مزید لمحہ فکر یہ بھی ہے کہ جس طرح حکومت پاکستان سکولوں اور ہسپتالوں کی نجکاری کر رہی ہے اس سے پیدا ہونے والے مسائل عام عوام کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوں گے غریب عوام صحت کے سہولیات جو پہلے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ان سے بھی محروم ہو جائیں گے اور سکولوں کے پرائیویٹ ہونے سے شرع نا خواندگی میں خوفناک حد تک اضافہ ہونے کا امکان ہے یہ وہ دلدل ہے جس سے اپ عوام کا نکلنا نہایت مشکل ہو جائے گا تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم کر کے جہالت کے وہی اندھیرے میں دھکیلنے کی سازش جڑ پکڑ چکی ہے۔
پہلے ہی دشمن ضمیر فروشوں اور مفاد پرست غدار وطن ٹولے کی بدولت عوام کے ذہنوں اور ان کی سوچ کو قبضے میں لے چکے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ ،آٹے کی قطاروں میں مفت راشن کے لیے سالوں سے ذلیل ہونے والی قوم یہ سوچنے سے قاصر ہے کہ آزادی ہی اصل زندگی ہے ابھی بھی وقت ہے ہمیں اپنے اور اپنی نسلوں کی بقا اور بہتر مستقبل کی خاطر متحد ہونا ہوگا ذرا سوچنے کی بات ہے جو لوگ غربت اور حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے اور حرام موت کو گلے لگانا قبول کر لیتے ہیں ،ڈنکی لگا کر سمندروں کی گہری تاریکی میں ڈوبنا گوارا کر لیتے ہیں، وہ لوگ اپنے حقوق کی خاطر کیوں نہیں متحدر ہو کر ظالموں کے خلاف کھڑے ہوتے یہ ذہنی غلامی ہے۔اس کی اصل وجہ وہ خوف ہے جس کی دھاک ایک مخصوص طبقے نے عام عوام کے دلوں پر بٹھا دی ہے۔اس کے علاوہ مایوسی اور دین سے دوری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے جبکہ اللہ واضح طور پر قران میں ہمیں مایوس ہونے سے منع فرماتا ہے۔یہ ظلم کے اندھیرے پھر سے چھٹ سکتے ہیں ذرا ہمت دکھانے کی دیر ہے مگر بات ہمیشہ کی طرح یہی اہم ہے کہ اس سب اقدامات کے لیے ہمارا متحد ہونا پہلی شرط ہے خدارا اقبال کے فلسفے کو سمجھیں اپنے اندر ایمان کا جذبہ پیدا کریں اور ان ظالموں کے ظلم سے چھٹکا رہا حاصل کریں اقبال کے خواب کی تکمیل ہم پر لازم ہے ۔جس دن شاعر مشرق کے شاہینوں نے اپنی اصل طاقت کو پہچانا اپنے ایمان کو زندہ کیا یہ وقت کے فرعون نست و نابود ہو جائیں گے تاریخ گواہ ہے کہ باطل مٹ کر رہتا ہے بس جذبہ ایمانی چاہیے اج بھی ظلمت کے گہرے سیاہ بادلوں کے پیچھے وسیع صاف و شفاف کھلا اسمان اور اجلی صبح ہماری منتظر ہے۔