ڈائریکٹر پنجاب کالجزآغا طاہر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ہمارے کالجز ہی نہیں دوسرے طلبا بھی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں ،یہ صرف ہمارا نہیں پورے شہر کا مسئلہ ہے
آغا طاہر کا کہنا تھا کہ 12 اکتوبر کو جیسے ہی یہ خبر آئی ہم نے اس پر انکوائری کرادی ،ہمارے پاس 6 لاکھ طلبہ ہیں ،ہم حقائق کو نہیں چھپا سکتے ،ہم یہ نہیں کہتے کہ غلطی نہیں ہوئی ،ہم آپ کے سامنے آئے ہیں تاکہ حقائق سامنے آ سکیں،حقائق نے ایک نہ ایک دن آشکار ہونا ہی ہوتا ہے ، انفارمیشن کو روکا نہیں جا سکتا ،انٹرمیڈیٹ لیول پر بچے اور بچیوں کی علیحدہ کلاسز ہوتی ہیں ،ہمارے پاس پورا ایک سسٹم موجود ہے ،پولیس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی ساری فوٹیجز اپنے کنٹرول میں لیں،ہمارے کچھ طلبہ دعوی کر رہے کہ وہ بچی کو جانتے ہیں ،وہ ہمیں بتائیں ہم اسکے گھر خود جائیں گے،گرفتار گارڈ چھٹی پر تھا جواب پولیس کی تحویل میں ہے ،سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں ابہام ہے،ہم اپنے اداروں میں زیر تعلیم بچیوں کی عزت کرتے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے بچے کلاسز میں پڑھائی دوبارہ شروع کریں،خبر چلی کہ ہماری بیسمنٹ میں دروازے ہیں ،میڈیا اور پولیس نے چیک کیا ہمارے بیسمنٹ میں کوئی دروازے موجود نہیں،ہم حق اور سچ پر ہیں، ہم نے میڈیا کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ،ایسا کوئی واقعہ ہی رپورٹ نہیں ہوا ،ہم بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں کہ غلط انفارمیشن پر آپ کو اداروں کو تباہ نہیں کرنا چاہیے،
لاہور کے کالج میں طالبہ سے زیادتی ،مبینہ من گھڑت ویڈیو کے خلاف مقدمہ درج
لاہور میں طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی: پنجاب حکومت کی ہائی پاور کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ
پنجاب کالج مبینہ زیادتی، پولیس واقعہ سے انکاری،طلبا کا آج پھر احتجاج
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر چند روز قبل دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’پنجاب کالج‘ کے خواتین کے لیے مخصوص گلبرگ کیمپس میں فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کو اُسی کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا ساتھ ہی ساتھ احتجاج کرنے والے طلبہ کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آئے کہ کالج کی انتظامیہ مبینہ طور پر اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس اس حوالے سے دستیاب تمام شواہد بھی ختم کر دیے ہیں،اُن کے کالج کے مالکان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے مقامی میڈیا پر بھی یہ خبر نشر نہیں ہونے دے رہے ہیں۔