بر صغیر پاک و ہند کے منفرد غزل گائیک اور اداکار طلعت محمود کی 22ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔ مخملی آواز کے مالک طلعت محمود 9مئی 1998کو 74سال کی عمر میں اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ کنگ آف غزل کا خطاب پانے والے طلعت محمود 24فروری 1924کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد منظور محمود ایک کٹر مذہبی مسلمان تھے۔ طلعت محمود نے ہوش سنبھالا تو انہیں میوزک سے لگاؤ پیدا ہو گیا لیکن ان کے والد کو اپنے بیٹے کا میوزک کی طرف مائل ہونا بالکل پسند نہیں تھا۔ لیکن اپنے چھ بچوں میں سے وہ سب سے زیادہ پیار طلعت کو کرتے تھے۔ طلعت ساری ساری رات اس وقت کے مقبول کلاسیکی اساتذہ کا میوزک سنتے رہتے تھے اس لئے میوزک کے اتار چڑھاؤ انہوں نے کافی حد تک سیکھ لئے تھے۔جلد ہی انہوں نے موریس میوزک کالج میں داخلہ لے لیا۔طلعت محمود کی عمر صرف 16سال تھی جب انہوں نے آل انڈیا ریڈیو لکھنؤپر مرزا غالب، داغ اور خواجہ میر درد کا کلام پڑھنا شروع کر دیا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی آواز اس وقت کے دوسرے گلوکاروں سے قدرے مختلف تھی جس کااس وقت کی سب سے بڑی میوزک کمپنی ایچ ایم وی نے سنجیدگی سے نوٹس لیا۔1941میں انہوں نے طلعت کا پہلا گراموفون ریکارڈ بنایا جس کے بول تھے’سب دن ایک سمان نہیں تھا، بن جاؤں گا کیا سے کیا میں، اس کا تو کچھ دھیان نہیں تھا’۔معروف شاعر فیاض ہاشمی کی لکھی اس غزل نے طلعت کوسنگر اسٹار بنا دیا۔ اس کے گراموفون ریکارڈ نے فروخت کے بھی نئے ریکارڈ قائم کر دئیے۔1944میں ایچ ایم وی نے طلعت سے ایک اور غزل گانے کا معاہدہ کیا۔ ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی، یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی’۔ فیاض ہاشمی کی ہی لکھی غزل نے برصغیر میں دھوم مچا دی۔ بر صغیر میں اب تک کسی غیر فلمی غزل نے اتنی مقبولیت حاصل نہیں کی تھی۔اس غزل کے بعد کلکتہ کی فلمی صنعت کے فلمسازوں نے بھی طلعت محمود کی طرف رخ کیا اور انہیں فلموں کے لئے گانے کی پیشکش کر دی لیکن طلعت محمود نے شرط رکھ دی کہ وہ فلم میں گانے کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کریں گے۔1945میں ریلیز ہونے والی فلم راج لکشمی وہ پہلی فلم تھی جس میں طلعت نے اداکاری بھی کی اور پہلا فلمی گانا بھی گایا۔ اس فلم کے لئے طلعت محمود کو تپن کمار کا فلمی نام دیا گیا۔ نغمہ نگار سریش چوہدری کے لکھے اس گیت کے بول تھے، اس جگ میں کچھ آس نہیں۔ موسیقی ترتیب دی تھی موسیقار ڈی ایم روبن نے۔ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی۔ لیکن طلعت کی آواز میں مزید نکھار پیدا کر گئی۔کلکتہ میں طلعت نے فلم تم اور میں اور سمپتی میں کام بھی کیا اورگانے بھی گائے جس کے بعد 1949میں برصغیر کے فلمی مرکز بمبئی کی طرف رخ کیاجہاں پہلے ہی ان کے نام کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ 1949میں موسیقار انیل بسواس نے اپنی فلم آرزو میں دلیپ کمار پر فلمائے گئے گیت کے لئے طلعت کی آوازکا انتخاب کیا جس کے بول تھے، اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو، اس گیت کے بعد طلعت محمود کے لئے فلموں کی لائین لگ گئی۔طلعت محمود نے اپنی فلمی زندگی میں 478گانے گائے، ان کی غیرفلمی غزلوں کی تعداد192ہے جب کہ دیگر زبانوں میں انہوں نے 89 گانے گائے۔طلعت محمود نے پاکستانی فلم چراغ جلتا رہا میں دو گانے گائے جب کہ موسیقار سہیل رانا کے لئے بھی انہوں نے تین گانے ریکارڈ کروائے۔ طلعت محمود نے گلوگاری کے ساتھ ساتھ 14فلموں میں اداکاری کی لیکن وہ ایک کامیاب ہیرو نہ بن سکے۔ان کی بطور اداکار آخری فلم سونے کی چڑیا تھی جس میں ان کی ہیروئن نوتن تھی۔ طلعت محمود نے اپنی فلمی زندگی کا آخری گانا 1985میں فلم ولی اعظم کے لئے گایا جس کے بول تھے میرے شریک سفر۔ جسے احمد وارثی نے لکھا تھا۔طلعت محمود نے 1946میں ایک بنگالی عیسائی خاتون لاتیکا ملک سے شادی کی لیکن وہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ 20فروری 1951کو طلعت نے گھر والوں کی مرضی سے نسرین نامی لڑکی سے شادی کی جس بطن سے1953میں ایک بیٹا خالد محمود اور1959میں بیٹی سبینا پیدا ہوئیں۔ خالد محمودآج کل امریکہ میں رہتے ہیں اور گلوکاری بھی کرتے ہیں لیکن وہ اپنے والد کی طرح نام نہیں کما سکے۔

- Home
- بین الاقوامی
- مخملی آواز کے مالک طلعت محمود کی 22 ویں برسی
مخملی آواز کے مالک طلعت محمود کی 22 ویں برسی

Khalid Mehmood Khalid5 سال قبل