وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا خیبرپختونخوا میں طلبہ یونینز کی بحالی کا اعلان

gandapur

پشاور: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے گورنمنٹ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبے میں طلبہ یونینز کی بحالی کا اعلان کیا۔ اس موقع پر انہوں نے سرکاری کالجوں کی سولرائزیشن کے منصوبے کا بھی افتتاح کیا، جس کا مقصد تعلیمی اداروں کی بجلی کے بل میں کمی کرنا ہے۔وزیراعلیٰ نے نوجوانوں کو ملک کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ طلبہ یونین کی بحالی کا یہ فیصلہ بانی پی ٹی آئی کے وژن کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم آپ کو سرکاری طور پر اختیار دے رہے ہیں، پاکستان پر آپ کا حق ہے، پاکستان نے آپ کو شہریت دی ہے، نوجوانوں نے ملک کا مستقبل طے کرنا ہے۔
علی امین گنڈا پور نے مزید کہا کہ "ہم نے ایسا نظام بنانا ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری اور بالادستی ہو۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی 25 کروڑ آبادی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے خود مختاری حاصل کرنا ہوگی اور فیصلے خود کرنا ہوں گے ، وزیراعلیٰ نے بانی پی ٹی آئی کے قید ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "حقیقی آزادی مانگنے کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ "ہماری حقیقی آزادی کی جنگ جاری ہے اور رہے گی، یہ جنگ ہم جیتیں گے۔” انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یہ جنگ قوم اور نسلوں کی ہے اور فیصلہ کن وقت قریب ہے۔قبل ازیں، وزیراعلیٰ نے گورنمنٹ کالج پشاور میں سرکاری کالجوں کی سولرائزیشن کے منصوبے کا افتتاح کیا، جس کے تحت 80 سرکاری کالجز میں 10 کے وی اے سولر سسٹمز کی تنصیب کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ اب تک 10 کالجوں کی سولرائزیشن مکمل ہو چکی ہے۔
ایک کالج میں سولر سسٹم کی تنصیب کی کل لاگت 24 لاکھ 10 ہزار روپے ہے، جس کے نتیجے میں ہر کالج کے بجلی کے بل میں ماہانہ 55 ہزار روپے کی بچت ہو گی۔ یہ سسٹم ہر ماہ 11 سے 12 ہزار تک بجلی یونٹس کی استعمال میں کمی لائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سولر سسٹم کی لاگت کو 3 سال سے بھی کم عرصے میں مکمل کر لیا جائے گا۔طلبہ، اساتذہ، اور والدین نے وزیراعلیٰ کے اعلان کا خیرمقدم کیا، اور یہ اقدام تعلیمی اداروں میں بہتری کی جانب ایک مثبت قدم سمجھا جا رہا ہے۔ طلبہ یونینز کی بحالی کو نوجوانوں کی آواز بلند کرنے اور ان کی حقوق کی حفاظت کے لئے ایک اہم موقع قرار دیا جا رہا ہے۔

Comments are closed.