افغان طالبان کے نائب وزیر داخلہ اور معروف عسکری کمانڈر ابراہیم صدر نے حالیہ دنوں انڈیا کا ایک ’خفیہ دورہ‘ کیا، جس دوران ان کی انڈین حکام سے اہم ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق ابراہیم صدر کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ممالک کے درمیان باہمی الزامات اور سرحدی تناؤ عروج پر ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے انڈین حکام کے ساتھ حساس نوعیت کی ملاقاتیں کیں، جنہیں بھارتی میڈیا نے خاصی اہمیت دی ہے۔

ابراہیم صدر کو طالبان قیادت، خصوصاً امیر ملا ہبت اللہ کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور وہ طالبان حکومت میں سیکیورٹی اور عسکری حکمت عملی کے حوالے سے کلیدی کردار کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اس سے قبل طالبان کے عسکری ونگ ‘ہلمند کونسل’ کی قیادت کر چکے ہیں اور امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا شکار افراد کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

بھارتی اخبار ’سنڈے گارڈیئن‘ نے اس دورے کو ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے ایسے اعلیٰ سطحی عہدیدار سے خفیہ روابط اور مواصلاتی ذرائع کا قیام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انڈیا طالبان حکومت سے تعلقات کے حوالے سے اپنے موقف پر نظرثانی کر رہا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب متعلقہ طالبان رہنما ماضی میں پاکستان کے حوالے سے تنقیدی مؤقف رکھتے رہے ہیں۔

اسی تناظر میں ایک اور اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی، جب 15 مئی کو انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ ایس جے شنکر نے بعد ازاں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھاکہ میری آج شام افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے اچھی بات چیت ہوئی۔ پہلگام میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت پر میں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘میں نے افغانستان کے عوام کے ساتھ دیرینہ شراکت داری اور ان کی ترقیاتی ضروریات کے لیے مسلسل بھارتی حمایت پر زور دیا، اور ہم نے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ رابطے ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت، طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب خطے میں سیکیورٹی اور سفارتی صورتحال مسلسل بدل رہی ہے۔

Shares: