تعلیمی نظام کی بھینٹ چڑھتی صفورائیں، قصور وار کون؟
تحریر:حبیب اللہ خان
پاکستان کے شہر بہاولپور کی بہاری کالونی میں 23 سالہ طالبہ صفورہ بتول نے امتحان میں ناکامی کے بعد خودکشی کرلی۔ یہ واقعہ نہ صرف دل دہلا دینے والا ہے بلکہ ہمارے معاشرتی اور تعلیمی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتا ہے، کیا ہمارا تعلیمی نظام طلباء کی ذہنی صحت کا خیال رکھتا ہے؟
یہ سانحہ محض ایک فرد کی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ہمارے تعلیمی نظام کے رویے اور معاشرتی دباؤ کی ایک گہری جھلک ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں کامیابی کو صرف اچھے نمبر اور گریڈ تک محدود کر دیا گیا ہے، نوجوانوں کے ذہنی سکون اور جذباتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ صفورہ کی خودکشی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ طلباء امتحانی ناکامی کو ذاتی ناکامی سمجھ کر زندگی ختم کرنے جیسے انتہائی اقدامات پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ادارے صرف عددی کارکردگی کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ طلباء کی ذہنی صحت، جذباتی بہبود اور شخصیت کی تعمیر کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ طلباء کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ ایک امتحان ان کی پوری زندگی کا پیمانہ نہیں ہو سکتا مگر موجودہ تعلیمی ماحول انہیں اس حد تک دباؤ میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ اپنی ذات پر یقین کھو بیٹھتے ہیں۔
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر غیر ضروری کامیابی کا بوجھ نہ ڈالیں۔ بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ امتحانات میں ناکامی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک تجربہ ہے جس سے سیکھ کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اعتماد دیں اور ان کی جذباتی سپورٹ بنیں تاکہ وہ ذہنی دباؤ سے بچ سکیں۔
تعلیمی اداروں میں مشاورت (کاؤنسلنگ) کے نظام کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ طلباء کو ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ضروری ہے جہاں وہ اپنے مسائل کو بیان کر سکیں اور ان کا حل تلاش کر سکیں۔ تعلیمی کامیابی کے ساتھ ذہنی سکون اور جذباتی توازن پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں کامیابی کا معیار صرف ڈگری، پیشہ ورانہ کامیابی اور مالی حیثیت تک محدود ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کامیابی کا حقیقی مفہوم وہ خوشی، سکون اور ذہنی توازن ہے جو انسان کی زندگی کو بامعنی بناتا ہے۔
صفورہ بتول کی خودکشی ایک دردناک سوال چھوڑ گئی ہے کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام صرف نمبروں اور نتائج کی دوڑ کے لیے بنا ہے یا طلباء کی شخصیت، جذبات اور ذہنی سکون کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہے؟ اس سانحے نے یہ حقیقت عیاں کی ہے کہ جب تک ہم تعلیمی کامیابی کو وسیع تر انسانی اقدار سے نہیں جوڑیں گے، تب تک ہم اپنی نسلوں کو صرف کامیابی کے بوجھ تلے روندتے رہیں گے۔
یہ وقت ہے کہ تعلیمی ادارے، والدین اور معاشرہ مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دیں جہاں امتحانی ناکامی کو ایک تعلیمی تجربہ سمجھا جائے نہ کہ زندگی کا خاتمہ۔ والدین کو اپنے بچوں کے لیے محبت اور حمایت کا ستون بننا ہوگا اور تعلیمی نظام کو طلباء کی ذہنی صحت اور جذباتی استحکام کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔
صفورہ کی المناک موت صرف ایک المیہ نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے تعلیمی اور معاشرتی رویوں کو نہ بدلا تو ہم مزید صفوراؤں کو کھو دیں گے۔ کامیابی کی تعریف کو دوبارہ متعین کرنا اور ایک جامع، متوازن اور انسانیت پر مبنی تعلیمی نظام کی تشکیل ہمارا اولین مقصد ہونا چاہیے۔