تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کیا جائے ، بجلی کی قیمیتں کم جائیں اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔ حافظ نعیم الر حمن
جماعت اسلامی نے آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف مقامات پر احتجاجی دھرنے شروع کر دیے ہیں۔ یہ دھرنے مہنگی بجلی اور بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کے خلاف دیے جا رہے ہیں۔جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے اسلام آباد کے سیکٹر آئی-8 میں دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے حقوق کی جنگ ہے۔ انہوں نے حکومت سے صرف ایک مطالبہ کیا کہ عوام کو ریلیف دیا جائے۔حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ احتجاج ان کا آئینی حق ہے اور وہ اس حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف آئی پی پیز (آزاد بجلی پیداکار) عوام پر مسلط کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔جماعت اسلامی کے سربراہ نے اعلان کیا کہ یہ دھرنے محض ایک آغاز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پورے پاکستان میں دھرنے دیں گے اور ان کا اگلا پڑاؤ مری روڈ ہوگا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہاکہ حکومت فارم 47 کی پیداوار ہے ،اسلام آباد سے بھی سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا،ان کاکہناتھا کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کم کیا جائے ، بجلی کی قیمیتں کم جائیں اور عوام کو ریلیف دیا جائے، ہم اپنی ذات اور اپنے لئے کچھ مانگنے نہیں آئے ، عوام پر گرائے جانے والے بجلی کے بم نامنظور ، حافظ نعیم الرحمان نے کہاکہ ہمارے گرفتار کارکنوں کو رہا کیا جائے ، کچھ بھی کرلو ایک ریلے کو پکڑو گے تو ہزاروں لوگوں کا اضافہ ہو جائے گا ،ان کاکہناتھا کہ آئی پی پیز کو بند کرو ، ہمارا اگلا پڑاو مری روڈ پر ہو گا ، کراچی سے لیکر چترال تک دھرنے ہوں گے۔اس موقع پر جماعت اسلامی نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے چار مختلف مقامات پر دھرنے دیے ہیں۔ یہ مقامات ہیں: مری روڈ راولپنڈی، زیرو پوائنٹ اسلام آباد، چونگی نمبر 26، اور راولپنڈی میں لیاقت باغ کے باہر. حافظ نعیم الرحمان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اربوں روپے کھا رہی ہے جبکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حافظ نعیم نے کہا کہ یہ احتجاج ملک میں جاری معاشی بحران، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی غصے کا اظہار ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے عوامی مسائل پر توجہ نہ دی تو یہ احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، حکومت نے ابھی تک احتجاجیوں کے مطالبات پر کوئی واضح ردعمل نہیں دیا ہے۔آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت اور احتجاجیوں کے درمیان کوئی مفاہمت ہوتی ہے یا یہ احتجاج مزید طول پکڑتا ہے۔