تقسیم کرنے والا!!! — انیس الرحمن باغی

0
58

اٹک میں موجود ختم نبوت ہوٹل اکثر ہماری چائے کی بیٹھک کی جگہ ہوتی ہے کہ یہاں کی چائے بہت معیاری ہوتی ہے اور دوسرا یہاں کا کھلا ماحول آپ کی طبیعیت کی بیزاری کو دور کرنے میں معاون ہوتا ہے۔

آج بھی ہم نے چائے پینے کا ارادہ بنایا تو ختم نبوت ہوٹل کو ہی چل دیئے چائے ابھی پہنچی نہیں تھی ہم گپ شپ میں مصروف تھے کہ میرے بائیں بیٹھے بھائی نے مجھے متوجہ کر کے کہا کہ یہ ساتھ تیسرے ٹیبل پر بزرگ بیٹھے ہیں ان کے پاس کھانے کیلئے پیسے نہیں ہیں ویٹر کو کہہ رہے تھے کہ میرے پاس 40 روپے میں مجھے روٹی کھلا دو تو ویٹر نے کہا کہ بابا جی 40 روپے میں تو چائے نہیں آتی کھانا کیسے آپ کو کھلاؤں؟؟؟ یہ سب گفتگو میرے ساتھ بیٹھے بھائی نے سنی تو مجھے کہا کہ جا کر کاؤنٹر پر بتا دو کہ ان بابا جی کو کھانا کھلا دیں رقم کی ادائیگی ہم کریں گے۔ ان شاءاللہ

کاؤنٹر پر جا کر میں انہیں کہہ کر آیا کہ بابا جی کو کھانا دیا جائے، ساتھ ہی چائے پلانے کا بھی کہہ دیا واپس آکر کہا کہ بابا جی یہ چالیس روپے جیب میں ڈالیں روٹی آپ کو دے دیتے ہیں بابا جی منہ سے کلمہ شکر نکلا اور برکت کی دعا دی لیکن آنکھوں سے یاسیت کی کیفیت نہ گئی اور کہنے لگے میں تو کھا لونگا لیکن میرے بچے جو کل سے بھوکے ہیں وہ کیا کریں گیں؟ ایڈریس کی بابت پوچھا تو کہنے لگے کہ حاجی شاہ رہتا ہوں کل کسی سیاسی شخصیت کا نام لیکر کہتے ان کے پاس گیا کہ کچھ کھانے کیلئے دے دو تو مجھے کہا گیا کہ صاحب موجود نہیں بعد میں آنا کا کہہ کر ٹال دیا گیا۔

ساتھ موجود دوسرے بھائی نے 300 روپے بابا جی کو کرایہ کی مد میں پیسے دیئے اور کہا کہ آپ رکشہ میں بیٹھ کر مرکز مصعب بن عمیر پیپلز کالونی پہنچیں ہم آپ کے بچوں کیلئے راشن کا بندو بست کرتے ہیں۔ مقامی بھائی نے مدرسہ میں فون کر کے ایک راشن پیک تیار کرنے کو کہا جو کہ مدرسہ کے بچوں کے راشن سے ہی بننا تھا۔ میں نے بابا جی کو مرکز کا ایڈریس سمجھایا اور اپنا نمبر انہیں دیا کہ وہاں پہنچ کر مجھے فون کریں۔

ہمارے چائے پینے کے بعد مرکز پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی مجھے ایک غیر مانوس نمبر سے کال آئی میں نے السلام علیکم کہا تو وہی مانوس سی نحیف آواز سنائی دی
"پتر میں اوہ بابا بول رہیا آں جسان تساں روٹی کھوائی اے میں ماشاءاللہ سی این جی ت بیٹھا آں”
میں نے بابا جی کو کہا کہ بابا جی آپ وہیں بیٹھیں میں آیا میں نے راشن اٹھایا اور ایک بھائی کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر ماشاءاللہ CNG پر پہنچا ان باباجی کو سامان دیا اور ان کو دعاؤں میں یاد رکھنے کا کہا تو بابا جی نے فقط نم آنکھوں کو چھلکنے سے روکا ورنہ وہ چھلکنے کو بے تاب تھیں۔ کہنے لگے مستریوں کے ساتھ کام کرتا ہوں بازو کمزور ہوگئے کہ اب مزدوری نہیں کر سکتا تین بچیاں اور ایک چھوٹا بچہ ہے۔

ہم نے بابا جی کو نماز پڑھنے اور رب سے دعا کرنے اور محتاجی دور کرنے کی دعا مانگنے کی تلقین کی اور سب کیلئے دعا کی تلقین کی اور کہا کہ بابا جی پوری کوشش ہوگی کہ آپ کو ماہانہ معقول راشن پہنچایا جا سکے، اور جلدی موٹرسائیکل کو واپس موڑا کہ کہیں بابا جی کی آنکھیں چھلک نہ پڑیں۔ اور واپسی پر سوچ رہا تھا کہ دنیا میں کیسے کیسے مجبور لوگ ہیں اور سفید پوش لوگ ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور ان کا حق پیشہ ور مانگنے والے دست سوال دراز کر کے کھا جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی رب تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ اس نے دینے والا اور تقسیم کرنے والا بنایا کہ اس نے اپنے علاؤہ کسی کا محتاج نہیں بننے دیا۔

Leave a reply