زیرِ اہتمام: تحریکِ دفاعِ قومی زبان و لباس
بانی و سرپرست: محترمہ عمارہ کنول چودھری

تحریکِ دفاعِ قومی زبان و لباس کی علمی و ادبی کاوشوں کے تسلسل میں، محترمہ عمارہ کنول چودھری کی سرپرستی میں ایک ماہ پر محیط تربیتی کارگاہ بعنوان علمِ عروض منعقد کی گئی۔ اس تربیتی کارگاہ کا بنیادی مقصد نئی نسل کو اردو شاعری کے فنی اور عروضی رموز سے آگاہ کرنا اور تخلیقی اظہار کو مستحکم عروضی بنیادوں پر استوار کرنا تھا۔

اس تربیتی کارگاہ کا آغاز مادام شاہانہ ناز صاحبہ نے مقررہ وقت پر نہایت خوش اسلوبی اور وقار کے ساتھ کیا، جبکہ مادام معظمہ شمس تبریز صاحبہ علالتِ طبع کے باعث شرکت سے معذور تھیں۔ مادام شاہانہ ناز صاحبہ نے آغاز ہی میں نہ صرف تربیتی کارگاہ کی فضا کو علمی ذوق اور ادبی سنجیدگی سے ہم آہنگ کیا، بلکہ ابتدائی اسباق کے تحت نظم و نثر کے امتیاز، غزل کی ہیئت و ساخت، قافیہ و ردیف، مطلع و مقطع اور حروفِ روی جیسے بنیادی مگر نہایت اہم موضوعات کو نہایت مؤثر اور مربوط انداز میں پیش کیا۔

جلد ہی مادام معظمہ شمس تبریز صاحبہ، جو خود ایک نامور شاعرہ اور لکھاری ہیں۔ انہوں نے تربیتی فرائض سنبھالتے ہوئے باقاعدہ طور پر علمِ عروض کی تدریس کا آغاز کیا۔ انہوں نے مکتوبی و ملفوظی حروف، تقطیع کے اصول، بحور اور افاعیل جیسے دقیق اور باریک مباحث کو اس قدر سہل، مربوط اور مؤثر انداز میں سمجھایا کہ طالبات کے دلوں میں اس علم کے لیے فطری دلچسپی پیدا ہونے لگی۔
ایک یادگار لمحہ وہ تھا جب مادام معظمہ شمس تبریز صاحبہ نے تمام طالبات سے فرمایا:
"سب نے فعلن فعلن فعلن فعلن کے وزن پر ایک ایک شعر لکھنا ہے!”

یہ لمحہ تمام طالبات کو نہ صرف ایک نئے موڑ پر لے گیا بلکہ ان کے سیکھے ہوئے علم کو عملی جامہ پہنانے کا بہترین موقع بھی فراہم کر گیا۔ علمِ عروض کے تمام قواعد و اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اشعار تحریر کرنا محض ایک تکنیکی عمل نہیں، بلکہ فنِ شعر وہ آئینہ ہے جس میں خیال نکھرتا ہے اور احساس چمکتا ہے۔

طالبات نے نہایت ذوق و شوق کے ساتھ اشعار کہے اور یہ احساس مزید گہرا ہوتا چلا گیا کہ عروض صرف ایک فن نہیں بلکہ ایک شعوری تربیت ہے، جہاں الفاظ کا توازن اور جذبات کا رچاؤ یکجا ہو جاتا ہے۔

کارگاہ کی انفرادیت یہ تھی کہ اس میں ہر عمر کی طالبات شامل تھیں۔ مادام معظمہ شمس تبریز صاحبہ کی شفقت، محبت اور مشفقانہ انداز ہر دل میں گھر کر گیا۔ جب وہ یہ فرماتیں:
"بچو! مجھے معلوم نہیں آپ کس عمر کے ہیں، مگر میرے لیے آپ سب بچے ہی ہیں۔”
تو ایک ایسا شفقت بھرا تعلق قائم ہو جاتا تھا جو سیکھنے کے عمل کو مزید مؤثر اور خوشگوار بنا دیتا۔

یہ تربیتی کارگاہ نہ صرف علمِ عروض کے فہم کا ذریعہ بنی بلکہ تحریری اور تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے میں بھی ایک سنگِ میل ثابت ہوئی۔
علمِ عروض کی اس بامقصد اور پُراثر تربیتی کارگاہ میں مادام معظمہ شمس تبریز صاحبہ نے نہ صرف نہایت خوش اسلوبی سے مفاہیمِ عروض کو آسان اور قابلِ فہم انداز میں سمجھایا، بلکہ عملی مشقوں کے ذریعے اس فن کو دلنشین اور بامعنی بھی بنا دیا۔
کارگاہ کے دوران ایک اور یادگار لمحہ وہ تھا جب مادام معظمہ صاحبہ نے ہم سب سے باقاعدہ غزل لکھنے کی مشق کروائی۔ انہوں نے اپنی غزل کا ایک مقطع پیش کیا اور ہدایت دی کہ اسی کے قافیے اور ردیف کی پابندی کے ساتھ مکمل غزل تحریر کی جائے۔ وہ مقطع یہ تھا:
اے شمس! اک دن میں دوستوں کو
نکال پھینکوں گی آستیں سے

اس مقطع میں قافیہ: "یں” اور ردیف: "سے” تھا، جس کی بنیاد پر طالبات نے نہایت خوبصورت اور بامعنی اشعار تخلیق کیے۔ اسی قافیہ و ردیف کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بھی ایک غزل لکھی، جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا:

نہ تیرگی تھی، نہ روشنی تھی
عجب مناظر تھے سرمگیں سے

علمِ عروض کی اس بامقصد تربیتی کارگاہ کے اختتام پر مادام معظمہ شمس تبریز صاحبہ نے ایک جامع حتمی امتحان لیا، جس میں نہ صرف سابقہ تمام اسباق سے متعلق سوالات شامل تھے بلکہ عملی مشق کے طور پر ایک مکمل غزل بمع مطلع و مقطع تحریر کرنے کی ہدایت بھی دی گئی۔

یہ مرحلہ تربیتی کارگاہ کا نچوڑ ثابت ہوا، جس نے طالبات کی فہم، مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں پرکھا۔ اس امتحان میں نمایاں کارکردگی دکھانے والی طالبات کے لیے تحریکِ دفاعِ قومی زبان و لباس کی جانب سے اسناد کے اجرا کا اعلان بھی کیا گیا۔

ان خوش نصیب اور قابلِ فخر طالبات میں زینب لغاری، حلیمہ طارق، عنبرین فاطمہ، حمیرا انور اور طوبیٰ نور خانم کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں، جنہوں نے اپنی محنت، لگن اور عروضی بصیرت کے ذریعے یہ اعزاز حاصل کیا۔ ان کی کامیابی نہ صرف ان کی ذاتی کاوش کا ثمر تھی بلکہ مادام محترمہ کی مؤثر رہنمائی اور شفقت آمیز تدریس کا جیتا جاگتا ثبوت بھی تھی۔
اس تربیتی کارگاہ کا اختتام نہایت خوش اسلوبی سے ہوا۔ یہ بامقصد علمی تربیتی کارگاہ بانی و سرپرستِ تحریکِ دفاعِ قومی زبان و لباس محترمہ عمارہ کنول چودھری کی زیرِ نگرانی منعقد ہوئی، جس کا مرکزی ہدف نئی نسل کو اپنی زبان، تہذیب اور ادبی روایتوں سے جوڑنا تھا۔

اختتامی مرحلے پر یہ احساس دل میں جاگزیں ہوا کہ ایسی علمی و ادبی تربیتی کارگاہیں نہ صرف شعری فنون کے فروغ کا ذریعہ بنتی ہیں بلکہ قومی زبان سے محبت کو بھی مضبوط بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔ میری دلی خواہش ہے کہ تحریکِ دفاعِ قومی زبان و لباس کے تحت آئندہ بھی اسی نوع کی تربیتی نشستیں منعقد ہوتی رہیں، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اپنی زبان، ادب اور ثقافت سے نہ صرف آشنا بلکہ گہری وابستگی بھی اختیار کریں۔

علمِ عروض کی اس تربیتی کارگاہ نے ہمیں سخن فہمی اور فنِ شعر سے شناسائی عطا کی۔ یہ سعادت تحریکِ دفاعِ قومی زبان و لباس کے زیرِ اہتمام نصیب ہوئی، جس پر ہم دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہیں۔

آخر میں مادام معظمہ شمس تبریز صاحبہ، مادام شاہانہ ناز صاحبہ کی رہنمائی، اور بانی و سرپرست محترمہ عمارہ کنول چودھری کے اخلاص و عزم کو دل سے خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں۔
دعا ہے کہ یہ تحریک علم، تہذیب اور قومی شناخت کے فروغ میں ہمیشہ مؤثر کردار ادا کرتی رہے۔

آمین ثم آمین۔

Shares: