تاریخِ افغانستان ۔۔ماضی کے جھروکوں کی رسہ کشی۔۔تحریر: کرن خان

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ،
افغان باقی، کہسار باقی
الحکم اللّٰہ، الملک اللّٰہ!!
ہم سب آج کل افغانستان پر بہت سے تجزیے، کہانیاں اور خبریں دیکھ رہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کے چرچے اب ہر گزرتے دن کے ساتھ معمول کے معاملات لگ رہے ہیں، بیس سالہ پرانے طالبان اب جدید معاشرے کے ماڈرن گُڈ لکنگ بوائز جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
طالبان، کٹھ پتلی افغان حکومتین جن کے سربراہان جو پاؤں جلنے پر دم دبا کر بھاگ نکلے، ایک فریق امریکہ اور اتحادی، مزید برآں خطے کے باقی ممالک کی شوروغل بھری آوازوں میں کیا کسی نے افغان قوم کی بہادری وجرات کو بھی ایک نظر دیکھا کہ خطہ ایسی دلیر قوم سے بھرا پڑا ہے کہ یہاں ماضی میں جتنے بھی حکمران آئے، اگر وہ افغان عوام سے مخلص نہیں تھے تو ان کی کرسی زیادہ دیر نہیں چلی، کٹھ پتلی حکمرانوں کی کرسیاں گرانے کی افغان عوام کی ایک تاریخ ہے، آئیے آج دیکھتے ہیں کہ ماضی میں کس کس نے افغانستان پر حکمرانی کی اور پھر کس طرح اپنی کرسی سے ہاتھ دھوئے۔

بیسویں صدی سے شروع ہوتے ہوئے سب سے پہلے بات کرتے ہیں بادشاہ ظاہر شاہ کی۔
ظاہر شاہ تاریخِ أفغانستان میں اس خطے پر سب سے زیادہ عرصہ حکمرانی کرنے والاے حکمران کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 1973 میں جب یہ روم گئے ہوئے تھے اس دوران ان کے کزن داؤد خان نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا دیا۔انہیں 2002 تک جلاوطنی میں رہنا پڑا۔ ان کا چالیس سالہ دورِ حکومت پوری أفغان تاریخ کا سب سے پرامن عرصہ جانا جاتا ہے۔طویل علالت کے بعد ظاہر شاہ نے 2007 میں 92 سال کی عمر میں وفات پائی۔

داؤد خان۔۔
ظاہر شاہ کے دورِحکومت میں دو مرتبہ وزیرِاعظم رہنے والے داؤد خان 1973 میں ظاہر شاہ کی حکومت گرانے کے بعد پہلے صدر بنے۔
1978 میں سویت یونین کے بننے کے بعد افغان خطے میں آنے والے انقلابِ ثور کے بعد داؤد خان کو اپنے خاندان کے بیشتر افراد سمیت ظالمانہ حملے میں اس وقت کی انقلابی جماعت پی ڈی پی اے کے افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ انقلابِ ثور کی تنظیم میں شامل تین افراد نور محمد ترکئی ، حفیظ اللہ امین اور ببرک کمال کا کردار کلیدی تھا۔
داؤد خان اور خاندان کی باقیات 2008 میں ایک اجتماعی قبر سے ملے تھے جنہیں بعد میں کابل میں دفنا دیا گیا تھا۔

نور محمد ترکئی۔۔
انقلابِ ثور کے تین مرکزی کرداروں میں سے ایک نور محمد ترکئی تھے۔ یہ بمشکل ایک سال کا عرصہ ہی صدارت کے عہدے پر رہ سکے۔ اس ایک سالہ دورِ حکومت میں نور محمد نے قتل و غارت کی ندیاں بہا دیں تھیں۔ انقلابِ چور کی مخالفت کرنے والے ہر افغان کو کونے کونے سے ڈھونڈ کر بدلے لینے میں نور محمد نے کوئی کسر نہیں اٹھائی تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ انقلاب کے ساتھی اور داؤد خان کے تختے کو الٹانے والے حفیظ اللہ نے ہی ستمبر 1979 میں تختہ الٹا اور 8 اکتوبر 1979 کو قتل کر دیا۔

حفیظ اللہ امین۔۔

ان کا انجام نور محمد ترکئی سے بھی بد تر نکلا۔سویت یونین کو شک تھا کہ حفیظ اللہ کے تانے بانے امریکی ایجنسی سی آئی اے سے ملتے ہیں، دسمبر 1979 میں مشہورِ زمانہ آپریشن سویت 333 میں انکو مار دیا گیا۔

ببرک کرمال۔۔

ببرک کرمال جو انقلابِ ثور کے تیسرے کردار تھے، انہوں نے جب قیادت سنبھالی تو انکا عرصہِ حکومت 7 سالہ تھا۔یہ سویت یونین کی کٹھ پتلی کے طور پر جانے جاتے تھے۔
1980 کی دہائی میں جب افغان مجاہدین نے پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے سویت یونین سے لڑنا شروع کیا تو ببرک کرمال پر سویت پریشر بڑھنا شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں انکو استعفیٰ دینا پڑا اور 1996 میں کینسر سے وفات پائی۔

نجیب اللہ ۔۔
روسی جاسوس ایجنسی کے تربیت یافتہ نجیب اللہ نے ببرک کرمال کی جگہ جب حکومت سنبھالی تو یہ اس وقت کے اشرف غنی ثابت ہوئے، جب مجاہدین باقی سارا افغانستان اپنے نام کرتے جا رہے تھے تو نجیب نے کابل کو سنبھالنے میں بہت مزاحمت کی، آخر کار اپنے ہی دوست جنرل دوستم نے جب مجاہدین سے ہاتھ ملایا تو نجیب سے روسیوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا، بالآخر نجیب کو 1992 میں اقوامِ متحدہ کے دفتر میں پناہ لینا پڑی۔ بہت مزاحمت کے بعد نجیب نے طالبان کے کہنے پر استعفیٰ دیا اور بھارت بھاگنے کی کوشش میں ناکام ہوئے۔ 1996 میں طالبان نے انہیں اور ان کے بھائی کو اقوامِ متحدہ کی عمارت سے گھسیٹ کر نکالا اور پھانسی پر لٹکا دیااور کئی دنوں تک کابل کے مرکز میں لٹکے رہے۔
ملا عمر نے اس وقت نجیب کے بارے میں کہا تھا کہ، "ہم نے اسے اس لئے مارا کیونکہ یہ ہمارے لوگوں کا قاتل تھا”

برہان الدین ربانی۔۔۔
1992 میں سویت یونین کے انخلا کے بعد یہ ایک سال تک افغانستان کے صدر رہے، ان کے دورِ حکومت میں کابل سمیت افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں طالبان بطور حکمران ابھر کر آئے، ستمبر 2011 میں برہان الدین ربانی کو ایک طالبان خود کش حملہ آور نے پگڑی میں بم رکھ کر ان کی رہائش گاہ پر مار دیا تھا۔

ملا عمر۔۔۔
90 کی دہائی اور برہان الدین کے خانہ جنگی کے دور کے بعد طالبان کے دور میں ملا عمر افغانستان کے حکمران بنے، انکی حکومت کو پاکستان نے تسلیم کیا جبکہ امریکہ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔11/9 کے بعد اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوا۔ انکے مرنے کے دو سال بعد دنیا کو انکے مرنے کا پتہ چلا تھا۔

حامد کرزئی۔۔۔
2001 سے 2014 تک امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی تھے۔ جو اب بھی کابل میں طالبان کے ساتھ موجود ہیں جبکہ اشرف غنی سینکڑوں ملین ڈالروں سمیت ملک سے بھاگ چکے ہیں۔

اشرف غنی۔۔
اشرف غنی کو اب کون نہیں جانتا۔۔ حامد کرزئی کے بعد ڈالروں سمیت ملک سے بھاگنے والے اشرف غنی کو افغان تاریخ میں اب صدیوں یاد رکھا جائے گا۔

اگر گزشتہ 50 سالہ تاریخ کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ افغانستان کی مٹی ہی ایسی ہے کہ یہاں سے روسی بھی رسوا ہوئے اور امریکہ بھی بے سرو سامان نکلا، حالانکہ جو کوئی بھی حکمران عوام کی امنگوں سے نہیں آیا تو افغان عوام نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ خطے میں امن و سلامتی کی فضا ہوگی اور جنوبی ایشیا سمیت دنیا ایک امن کا گہوارا بنے گی۔ آمین!!

ٹویٹر اکاؤنٹ:
@Kirankhan9654

Comments are closed.