1990 کا سال خلیجی خطے کی سیاست میں ایک ہنگامہ خیز موڑ لے کر آیا۔ جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو پورے عرب خطے میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ سعودی عرب، جس کی سرحدیں جنگ کے قریب آ چکی تھیں، نے فوری طور پر امریکہ سے فوجی مدد طلب کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے، امریکی فوجی طیارے سعودی عرب کے فضائی اڈوں پر اُترنے لگے۔ اُس وقت یہ قدم ایک حفاظتی تدبیر سمجھا گیا، لیکن یہی فیصلہ آگے چل کر مسلم دنیا میں ایک نئے انحصار کا آغاز بن گیا۔ ایسا انحصار جس نے مسلم ممالک کی عسکری خودمختاری کو مغرب کے مفادات سے جوڑ دیا۔ امریکہ خلیجی خطے میں چوکیدار بن کر اُبھرا۔ مسلم ریاستیں اس کے سائے میں خود کو محفوظ سمجھنے لگیں، لیکن جلد ہی یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ یہ چوکیدار اصل میں ایک سوداگر ہے۔ وہ حفاظت کے وعدے ضرور کرتا ہے، مگر صرف اُس وقت تک جب تک اس کے مفادات وابستہ ہوں۔ جہاں فائدہ ختم ہوا، وہاں ذمہ داری کا بوجھ اُتار دیا گیا۔
یہ حقیقت وقت کے ساتھ اور بھی واضح ہوتی گئی۔ جب ایران نے قطر میں واقع امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے، امریکہ نے کوئی سخت ردعمل نہ دیا۔ جب اسرائیل نے قطر میں حماس کے رہنماؤں پر حملے کیے، جہاں امریکی فوجی بھی موجود تھے، تب بھی امریکہ خاموش رہا۔ اس خاموشی کی سب سے سنگین مثال فلسطین کے معاملے میں دیکھی گئی، جہاں سالہا سال سے اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی بمباری، بچوں کی شہادتیں، مساجد کی تباہی اور عام شہریوں کی نسل کشی پر امریکہ کی پالیسی صرف اظہارِ تشویش تک محدود رہی۔
یہی وہ مقام تھا جہاں مسلم دنیا نے آنکھیں کھولیں۔ آہستہ آہستہ روایتی اتحادیوں پر انحصار کم ہونے لگا۔ عالمی توازن میں تبدیلی آ رہی تھی۔ چین ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ روس نے مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی مضبوط کی اور پھر ایک نیا رجحان سامنے آیا۔ مسلم ممالک نے مغرب پر انحصار کے بجائے، آپس میں عسکری، اقتصادی اور سفارتی اتحاد کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ یہ وہی دور تھا جب بھارت نے پاکستان کو ایک بار پھر للکارا۔ دشمن کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لا سکتا ہے، مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اب وہ پاکستان نہیں، جو صرف دفاع تک محدود رہتا تھا۔ پاکستان نے دشمن کے رافیل طیارے مار گرائے، اس کے ارادے فضاؤں میں بکھیر دیے اور دنیا کو باور کرا دیا کہ یہ نیا پاکستان ہے، مضبوط، خوددار اور چپ نہ رہنے والا۔
پاکستان کے اسی مضبوط کردار نے خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کیا۔ سعودی عرب، جو طویل عرصے سے امریکہ پر انحصار کرتا رہا، اب ایک نئے اتحادی کی تلاش میں تھا۔ ایسا ساتھی جو صرف وعدے نہ کرے، بلکہ وقت آنے پر کھڑا ہو سکے۔ اس بار اُس کی نظر اسلام آباد پر پڑی اور یوں تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی دفاعی معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی نوعیت محض رسمی یا علامتی نہیں، بلکہ حقیقی ہے۔ اس کے تحت دونوں ممالک عسکری تعاون کو نئی سطح پر لے جائیں گے۔ مشترکہ جنگی مشقیں کی جائیں گی، انٹیلیجنس شیئرنگ ہوگی اور سب سے اہم بات، پاکستان حرمین شریفین کے دفاع میں براہِ راست شریک ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ بھی کیا ہے، جس سے دفاعی کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعاون میں بھی گہری مضبوطی آئے گی۔
یہ صرف ایک معاہدہ نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک نئی سمت کا تعین ہے۔ یہ ایک پیغام ہے کہ مسلم دنیا اب دوسروں کی محتاج نہیں رہے گی، بلکہ خود اپنے تحفظ، اپنے مفادات اور اپنے مستقبل کی ضامن بنے گی۔ یہی وہ لمحہ ہے جسے ایک نئے اسلامی عسکری بلاک کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ترکی اور ایران بھی پاکستان کے ساتھ اسی نوعیت کے معاہدوں پر غور کر رہے ہیں۔ اگر یہ تعاون حقیقت بن گیا، تو یہ اتحاد نہ صرف خطے کے لیے، بلکہ دنیا بھر میں مظلوموں کے لیے ایک طاقتور پیغام بن جائے گا۔ اس بدلتے منظرنامے میں ایک شخصیت کا کردار سب سے نمایاں ہے، پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر صاحب۔ وہ صرف آرمی چیف نہیں، بلکہ ایک وژنری رہنما ہیں جنہوں نے پاکستان کی عسکری، سفارتی اور اسٹریٹجک پوزیشن کو ازسرنو متعین کیا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے داخلی استحکام حاصل کیا، خارجی سطح پر اپنی خودداری کا پرچم بلند کیا اور عالمی برادری کو دوٹوک پیغام دیا کہ پاکستان اب برابری کی سطح پر تعلقات چاہتا ہے۔
دنیا انہیں خطرناک ترین آرمی چیف کہتی ہے، کیونکہ وہ امریکی مفادات کے لیے لچکدار نہیں، بلکہ اصولوں پر ڈٹ جانے والے سپہ سالار ہیں، لیکن پاکستان کے عوام کے لیے وہ امید، طاقت اور غیرت کا استعارہ ہیں۔ ان کی موجودگی نے پاکستانی عوام کو اعتماد دیا ہے کہ وہ صرف ایٹمی ہتھیار نہیں، بلکہ ایک باشعور اور بہادر فوج کی پشت پر کھڑے ہیں۔ ان کی حکمت عملی نے دنیا کو بتایا ہے کہ پاکستان صرف دفاعی طاقت نہیں، بلکہ قیادت، قربانی، نظم اور غیرت کا مجموعہ ہے۔ اب اگر کوئی پاکستان پر حملے کی سوچتا ہے، تو اسے یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اس کے خلاف جواب صرف پاکستان سے نہیں آئے گا، بلکہ مکہ اور مدینہ سے بھی دیا جائے گا۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے اب پاکستانی فوج ایک دیوار بن چکی ہے۔
طاقت کا توازن اب مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا غلامی کے نفسیاتی خول سے باہر نکل رہی ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، ایران اور دیگر مسلم ریاستوں کے درمیان بنتے ہوئے تعلقات ایک نیا باب رقم کر رہے ہیں۔ ایسا باب جہاں عزت کے ساتھ جینا اولین ترجیح ہے۔ یہ اتحاد صرف کسی ایک دشمن کے خلاف نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کے وقار، بقاء اور آزادی کی علامت بننے جا رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان اکیلا نہیں۔ اب ہر وار کا جواب ہے۔ اب ہر سازش کا توڑ ہے۔ اب امتِ مسلمہ ایک نئی طاقت کے طور پر دنیا کے سامنے آ رہی ہے، ایک ایسا اتحاد جو غلامی کو جرم اور خودداری کو فخر سمجھتا ہے۔