تاریخ سے سبق کون سیکھے گا؟ .تحریر :علی رضاعلوی

0
53

غلطیوں کے انبارسب نے لگائے لیکن جوقوم اپنی غلطیوں سے سیکھ کرآگے بڑھ سکے باشعورکہلانے کی مستحق ٹھہرتی ہے،دوسری جنگ عظیم میں خوفناک تباہی کے بعد چاروں شانے چت ‘جرمنی اٹھا، دائیں بائیں دیکھا،کپڑے جھاڑے،اپنے زخموں پرنظرڈالی،انہیں سوہان روح سمجھنے کے بجائے سنگ میل بنایااورشاہراہ ترقی پرچل نکلا‘جاپان نے جیتی ہوئی جنگ ہیروشیما اورناگاساکی کی کوکھ میں راکھ بنتے دیکھی،پرل ہاربر کیابھولا پھول کھلنا بھول گئے،آج دنیابھر میں ایسی قابل رشک معاشی حیثیت کہ ہمیں ابھی ابھی کہاہے‘ چلوقرضے کے چنددن اور۔ایران‘انقلاب کے فوری بعدمسلط کردہ جنگ اورپابندیوں کے باوجوبہتری کی جانب گامزن، کئی دہائیوں پرمحیط سعودی،ایران مخاصمت کی آغوش سے بات چیت اورمحبت بھرے بیانات کی بازگشت شروع۔دنیا کسی ایک جگہ پرنہیں ٹھہرتی،سفربہرطورجاری رہتا ہے،بہتاپانی شفاف اوررکاہوا‘ کائی اورتعفن کودعوت دیتاہے، کہاگیاہے کہ کشمیرپرعقبی راستے کی سفارتکاری رنگ دکھاچکی،گلگت‘بلتستان کے دکھوں کے چند گنتی کے دن باقی رہ گئے،غلطیاں سیاستدانوں نے بھی کیں اورآمروں نے بھی۔ لیکن کوئی تاریخ کے جبرسے سیکھنا چاہے توطعن وتشنیع سے گریز ہی آخری چارہ کار،مگرادراک کون کرے ۔

غلطیاں خارجی توکیاداخلی محاذوں پہ بھی کچھ کم نہیں ہوئیں،ابھی کل ہی کی توبات ہے جب لاہورکاوز یراعلی‘اسلام آباد کی وزیراعظم کامنہ تک دیکھنے کا روادارنہ تھا‘سندھ،بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی داستاں تونہ ہی چھیڑیئے،شاید یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے غبارے سے جب ہوا نکالی تواسے ماضی کے انتقام سے بھی تعبیرکیا گیا،بھلے ”شہیدہ“کا آخری فو ن ”بھائی“کوتھا۔

پی ڈی ایم کی تشکیل چند ماہ پیشتر کی ہی توبات ہے‘قومی اتحاد،نیپ اورقوم پرستوں کی دیگرتحریکوں کے قیام اور شکست وریخت کی باتیں توقصہ پارینہ ٹھہریں،کل کی بات ہے جب ایفائے عہدکی تمنائیں جوان ہوئیں،قربتیں بڑھیں، ایک دوسرے پرسیاسی سبقت لے جانے کی کوششیں عیاں ہوئیں۔دائیں زانوں کے ساتھ ہمیشہ پاندان اورلبوں پہ شعروسیاست رکھنے والے نوابزادہ نصراللہ خان کی یادتازہ ہوگئی،ان کی مسندجلیلہ پرسابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکوشکست سے دوچارکرنے اور محرومی اقتدارسے منزل دارتک پہنچنے میں معاون بننے والے حضرت مولانامفتی محمود کے سپوت مولانافضل الرحمن براجمان ہوئے، قلوب واذہان میں اے آرڈی کی یاد تازہ ہوگئی،کچھ شہروں میں احتجاجی جلسوں کی گھن گرج عوام الناس کومتوجہ کرپائی یا نہیں‘بہرحال میڈیا کاپیٹ بھرنے میں بطریق احسن کامیاب ہوگئی،نتیجہ یہ نکلا کہ بائیس برس کی نوخیزجماعت پہلی باروفاق میں برسراقتدارآتے ہی تنقیدکی زدمیں آگئی،سات دہائیوں کے ذکر سے گریزاں ماضی کے حکمراں پوری گھن گرج کے ساتھ اڑھائی برسوں کا حساب مانگنے لگے،آپ توکہتے تھے اتنے درخت لگائیں گے کہاں لگے؟زرد ہواؤں کے تھپیڑے میں آئے پاکستان کوسرسبزکیوں نہیں بنایا؟روزگارپید ا کرنے کے مواقع کہاں ہوا ہوئے؟اورہاں وہ تہہ درتہہ،پہلوبہ پہلوگھروں کی آسودگی کے دکھائے گئے خواب؟سوالات کرنے والوں سے بھی کچھ سوال توبنتے تھے،پوچھا گیا،خارزارسیاست آپ کیلئے چمنستان دہرکیسے ثابت ہوا؟دس‘بیس،تیس برس قبل جب آپ نے وادی سیاست میں قدم رنجہ فرمایا تواثاثے تب کیا تھے اب کیا ہیں؟سوالات کا جواب دینے کی بجائے حساب مانگنا جرم ٹھہرا،جب کسی کتاب سے حساب کاجواب نہیں ملاتواحتساب کا قومی ادارہ گردن زدنی ٹھہرا، وہ بھی جنہوں نے گلی کوچوں سے سرحدوں تک نگہبانی کیلئے خون کے دریا عبورکئے،سوال جواب میں آوازیں بلند ہوتی گئیں،آستینیں تہہ ہوناشروع ہوگئیں،منہ سے نکلتی جھاگ چہرے چھونے لگی،پارلیمان میں ہاتھ گریبانوں تک جاپہنچے،ہوا کے دوش سے لوگوں نے یہ منظربھی دیکھا کہ جمہوریت کیلئے باعث فخرایوان پہلوانوں کے اکھاڑے میں تبدیل ہوتا چلا گیا،بات نعروں اورگریبانوں سے بڑھ کرجوتے مارنے اوربجٹ کے تخمینے ایک دوسرے پرپھینکنے تک جاپہنچی، مہنگائی،بے روزگاری او ر کورونا کی بدحالی کے ڈسے عوام کی بد دلی بڑھنے لگی،انہیں لگنے لگا کہ اگراڑھائی برسوں میں منزل نہیں ملی تو ان ستربرسوں سے بھی صرف نظرنہیں کیا جاسکتا جن کے میرکاررواں کبھی اسلام اورکبھی روٹی کپڑا اورمکاں کالولی پاپ دیتے رہے،ان کے اثاثے تو اربوں،کھربوں کی دہلیزعبورکرگئے لیکن غریب کی کٹیا کا دیابدستور مٹی کے تیل کامنتظررہا۔

غلطیاں ماضی میں کی گئیں تھیں،غلطیاں اب بھی جاری ہیں،سیاستدانوں نے بھی کیں،آمروں نے بھی۔سانپ گذرگئے‘لکیراب تک پٹ رہی ہے جانے کب تک پٹتی رہے گی،غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والوں کوتاریخ کبھی معاف نہیں کرتی‘اصل مسائل کا ادراک کسی کوتو کرنا پڑے گا،ملکی مسائل حل کرنے کیلئے تلخ یادوں کوچھوڑکرآگے بڑھنا ہو گا،بوڑھے قدرداں آسودہ خاک ہوئے ،جواں حکمرانوں کی ترجیحات مختلف۔اب رشتے عقائد نہیں،باہمی مفادات اورتجارت طے کرتی ہے،کہاں بھارت‘سعودی عرب چالیس ارب ڈالرکی صرف ایک شعبے‘پٹرولیم میں تجارت اورکہاں ہمارے چارارب ڈالرکی اونٹ میں زیرے کے برابرکی حیثیت،دیدہ ورکہتے ہیں بات مسلمان بھائی سے آگے نکل چکی ہے،کمیونسٹ چین،روس اورمسلمان پاکستان،ایران،ترکی اپنی اپنی راہ بھی نکالیں گے اورمل کربھی،انہیں ترجیحات میں قطراورمتحدہ عرب امارات کوبھی مت بھولئے، نصرت بھٹوکینسر، بے نظیربھٹو کان اور نوازشریف پلیٹ لیٹس کاعلاج کرانے گئے تھے، مریم کوبھی شاید خاموشی سے کہیں جاناپڑے‘رہے عمران خان تووہ بیرونی دنیا میں جھنڈے گاڑ چکے،بولے توٹرمپ اوران کی کابینہ پہ سکتہ چھا گیا‘بائیڈن سے بھی وہی نمٹیں گے، معیشت مستحکم ہوئی تواندرونی مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔

سینئرصحافی اورتجزیہ کارعلی رضاعلوی @alirazaalviJتقریبا اٹھائیس برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں،روزنامہ جنگ،روزنامہ نوائے وقت،روزنامہ ایکسپریس،روزنامہ دن سمیت متعد د قومی اخبارات میں کالم لکھتے رہے،آج کل baaghitv.com کیلئے لکھ رہے ہیں۔ان کا ٹوئٹرہینڈل @alirazaalviJ ہے جس پران سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ آج کل جی ٹی وی پر پروگرام ریڈ زون کی میزبانی کر رہے ہیں یہ پروگرام جمعه ، ہفتہ ، اتوار رات دس بجکر پانچ منٹ پر نشر ہوتا ہے

Leave a reply