تشدد کے سائے اور گھریلو ملازمین کی حالت زار

آج کل جج کی بیوی کے ہاتھوں ایک کم عمر ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کی خبروں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر یک طرفہ مؤقف نے ہر زی شعور کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ حقیقت جو بھی ہو گی جلد سامنے آ جائے گی۔گھریلو خواتین کو ملازمہ کی ضرورت رہتی ہے اور شاید ہی کوئی بد بخت ہو جو اپنے گھریلو ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھے۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کسی بھی خاتون خانہ کو ملازمہ پر ہاتھ اٹھانے کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوتی ہے عام طور پر ایک طرف بہت کم تنخواہ پر ملازمہ رکھتے ہیں دن بھر اس سے کام لیتے ہیں اور پھر اسے تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اپنے پورے عروج پر ہیں۔مجھے بھی ایسا ہی ایک واقعہ یاد ہے جب ہماری پڑوسن نے محض فریج میں سے ایک سیخ کباب کھانے پر اپنی ملازمہ کو ایک انتہائی سرد شام گھر سے نکال دیا اور اسے رات پارک میں بسر کرنا پڑی۔ یہ واقعہ بھی دل و دماغ کو ماؤف کر دیتا ہے۔ اب ایک سیخ کباب کھانے پر ملازمہ کو گھر سے نکال دینا کسی بھی طور عقل مندی نہیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئیے کہ درگذر کرتے ہوئے ملازمہ کو سمجھایا جائے یا پھر اگر اسے بھی وہی کھانے کو دے دیا جائے جو گھر کے مکین کھاتے ہیں تو کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ بطور جج کی اہلیہ کی خبروں نے بہت سے قصے تازہ کر دئیے ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں گھریلو ملازمین پرتشدد جیسے عام سی بات ہو،دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حالیہ برسوں میں گھریلو ملازمین کے خلاف تشدد کے واقعات میں پریشان کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ غربت اور استحصال کے چکر میں پھنسے ہوئے، یہ کمزور افراد، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، اپنے مالکوں کے ہاتھوں جسمانی، زبانی اور جنسی استحصال کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کی حالت زار کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں کچھ پیش رفت کے باوجود، پاکستان میں گھریلو ملازمین کے تحفظ اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔گھریلو ملازمین پاکستان بھر میں لاکھوں گھرانوں کی زندگیوں میں ایک ناگزیر کردار ادا کرتے ہیں۔ اکثر غریب دیہی علاقوں سے آنے والے کام کے مواقع کی تلاش میں شہروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ افسوسناک طور پروہ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ذریعہ بدسلوکی کا شکار پاتے ہیں جو انہیں ملازمت دیتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق، تقریباً 20 فیصد گھریلو ملازمین تشدد کا شکار ہیں، اور بے شمار دیگر افراد کو استحصال، کم اجرت اور کام کے نامناسب حالات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں گھریلو ملازمین مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہیں۔ جیسے جسمانی زیادتی، بشمول مارنا پیٹنا اور یہاں تک کہ جلانا، افسوسناک طور پر عام ہے۔ زبانی بدسلوکی، توہین آمیز تبصرے، اور دھمکیاں جو ان کے دکھوں میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی ایک عام سی بات ہے، بہت سے گھریلو ملازمین اپنے آجروں اور ان کے خاندان کے افراد کی جانب سے ناپسندیدہ پیش رفت اور نامناسب رویے کو برداشت کرتے ہیں،پاکستان میں گھریلو ملازمین کے خلاف تشدد کو عام کرنے میں کئی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسے سماجی اصول اور گھریلو ملازمین کو کمتر اور ڈسپوزایبل تصور کرنا ان کے کمزور ہونے میں معاون ہے۔اور تو اور قانونی تحفظ کا فقدان اور اس شعبے میں روزگار کے لیے واضح رہنما اصولوں کی عدم موجودگی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ مزید معاشرے میں خواتین کی پست حیثیت استحصال اور بدسلوکی کے کلچر کو مزید برقرار رکھتی ہے، کیونکہ بہت سے گھریلو ملازم خواتین ہیں۔ تاہم پاکستانی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ گھریلو کام کو منظم کرنے اور کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بنانا۔ گھریلو ملازمین (روزگار کے حقوق) ایکٹ 2021 میں منظور کیا گیا جس کا مقصد گھریلو ملازمین کے لیے کام کے مناسب حالات اور مناسب معاوضے کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم، گھریلو کام کے بہت سے انتظامات کی غیر رسمی نوعیت اور مالکان کی تعمیل کرنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے نفاذ ایک چیلنج بنا ہوا ہے،گھریلو ملازمین کے خلاف وسیع تشدد سے نمٹنے کے لیے، بیداری پیدا کرنا مالکان کو ملازمین کے حقوق اور ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔جو مہمات اور ورکشاپس ان کمزور افراد کی حالت زار کے بارے میں ہمدردی اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہیں، اسکے علاوہ مثبت تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے، صاحب حیثیت لوگ جو ملازم رکھنے کے خواہشمند ہو ان کو روزگار کے اخلاقی طریقوں کو اپنانا چاہیے اور گھریلو ملازمین کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ برتاؤ کرنا چاہیے۔ منصفانہ اجرت پر عمل درآمد، مناسب حالات زندگی فراہم کرنا، اور مناسب اوقات کار کو یقینی بنانا ایک محفوظ ماحول بنا سکتا ہے، گھریلو ملازمین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے سماجی، قانونی اور انفرادی سطح پر جامع کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس میں احترام اور ہمدردی کا ماحول پیدا کرنا، تعلیم اور بیداری کو فروغ دینا، مزدوری کے قوانین کو نافذ کرنا، اور ضرورت پڑنے پر گھریلو ملازمین کو انصاف تک رسائی کے لیے سپورٹ سسٹم فراہم کرنا شامل ہے۔ ان بنیادی مسائل کو حل کر کے، پاکستان ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی معاشرے کی طرف بڑھ سکتا ہے جہاں تمام افراد کے ساتھ عزت اور انصاف کے ساتھ سلوک کیا جائے، چاہے ان کا پیشہ کچھ بھی ہو۔
بعض لوگوں کو مؤقف ہے کہ اگرچہ ہمارے یہاں بے شمار قوانین ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔یہ بھی کسی حد تک درست ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخع قوانین پر عمل درآمد کون ممکن بنائے گا؟ ہمارے کئی ادارے بھی امراٗ کے زیر اثر آ جاتے ہیں اور یوں غریب کی شنوائی پس پشت چلی جاتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کورٹ کچہری کی بجائے ہمیں احترام اور ہمدرد بن کر سوچنے کی کوشش کرنا ہو گی۔

Comments are closed.