سگریٹ اور تمباکو پر ٹیکس لگے گا تو غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گا
تحریر: راحین راجپوت
دنیا بھر میں تمباکو نوشی کو ایک مہلک عادت تسلیم کیا جاتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف صحت بلکہ معیشت پر بھی پڑتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں میں حکومتیں تمباکو مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگا کر اس کے استعمال کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت کی شرح بلند ہے اور صحت کی سہولیات محدود ہیں، وہاں سگریٹ اور تمباکو پر ٹیکس لگانے کی حکومتی پالیسی نہ صرف صحت عامہ کے حوالے سے اہم ہے بلکہ یہ غریب طبقے کی مالی حالت پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے۔

پاکستان میں تمباکو نوشی ایک عام عادت ہے، جو نوجوانوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک میں پائی جاتی ہے۔ سگریٹ، نسوار، حقہ اور پان میں استعمال ہونے والا تمباکو روز مرہ کی زندگی میں بہت عام ہے۔ پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد تمباکو سے جڑی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، جن میں پھیپھڑوں کا سرطان، دل کی بیماریاں اور سانس کی تکالیف شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 160,000 سے زائد اموات تمباکو نوشی سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

جب حکومت سگریٹ اور تمباکو پر ٹیکس عائد کرتی ہے تو اس کے پیچھے دو بڑے مقاصد ہوتے ہیں:
1۔ عوام کو تمباکو نوشی سے روکنا
2۔ قومی خزانے کے لیے آمدنی اکٹھا کرنا

جب کسی چیز پر ٹیکس لگایا جاتا ہے تو اقتصادی اصول کے مطابق جب کسی چیز کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کی مانگ کم ہو جاتی ہے۔ یہی تصور یہاں بھی کار فرما ہوتا ہے کہ سگریٹ مہنگی ہوگی تو لوگ کم خریدیں گے اور اس مہلک عادت سے باز آئیں گے۔

تاہم پاکستان جیسے ملک میں جہاں سگریٹ نوشی کی عادت کئی دہائیوں سے جمی ہوئی ہے، وہاں صرف قیمتیں بڑھانا ہی کافی نہیں۔ جب سگریٹ پر ٹیکس لگتا ہے اور اس کی قیمت بڑھتی ہے، تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ غریب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ محدود آمدنی میں اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں، اس لئے اگر کوئی فرد تمباکو نوشی کا عادی ہے تو وہ اپنی دیگر ضروریات جیسے کھانا، تعلیم یا دوا پر خرچ کر کے بھی سگریٹ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح ٹیکس سے تمباکو نوشی مکمل ختم تو نہیں ہوتی، لیکن غریب طبقے کی مالی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کم آمدنی والے افراد سگریٹ کی جگہ نسوار یا دیگر سستی مگر زیادہ نقصان دہ یا اس کی متبادل اشیاء ڈھونڈ لیتے ہیں، جس پر ٹیکس کی شرح یا تو کم ہوتی ہے یا بالکل نہیں۔ نتیجتاً، ٹیکس کا مقصد یعنی صحت بہتر بنانا، مکمل طور پر حاصل نہیں ہو پاتا۔

بین الاقوامی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تمباکو پر ٹیکس لگانے سے اس کے استعمال میں کمی واقع ہوتی ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق تمباکو پر ٹیکس میں 10 فیصد اضافہ، اس کی کھپت میں تقریباً 4 فیصد کمی کرتا ہے، اور کم آمدنی والے ملکوں میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں بھی اس پالیسی کے کچھ مثبت اثرات دیکھے گئے ہیں، جیسے نوجوانوں میں سگریٹ شروع کرنے کی شرح میں معمولی کمی۔ تاہم مجموعی طور پر تمباکو نوشی کی شرح میں نمایاں کمی لانے کے لیے ٹیکس کے ساتھ ساتھ تعلیم، آگاہی اور صحت کی سہولیات بھی ضروری ہیں۔

ٹیکس ایک مؤثر ہتھیار ہے لیکن اگر اس کے ساتھ دیگر اقدامات نہ کیئے جائیں تو یہ کافی نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ سگریٹ اور تمباکو نوشی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرے:

* تمباکو نوشی کے نقصانات سے متعلق آگاہی مہم چلائی جائے۔
* سکولوں اور کالجوں میں تمباکو مخالف تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
* سگریٹ کی فروخت پر عمر کی حد کو سختی سے لاگو کیا جائے۔
* علاج معالجے کی سہولیات جیسے کہ تمباکو چھوڑنے والے مراکز قائم کیئے جائیں۔
* تمباکو مصنوعات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہو۔

اگرچہ سگریٹ پر ٹیکس سے حکومت کو اربوں روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے، لیکن ان فنڈز کا ایک حصہ صحت کے شعبے میں استعمال ہونا چاہیئے، خاص طور پر غریب طبقے کے لیے۔ حکومت اگر چاہے تو ان فنڈز کو عوامی ہسپتالوں میں صحت بہتر بنانے، تمباکو چھوڑنے کے پروگراموں اور بنیادی صحت کے مراکز کے قیام کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اس طرح غریب عوام کو دو طرفہ فائدہ ہو سکتا ہے، ایک طرف صحت بہتر ہو اور دوسری طرف مالی بوجھ کم ہو۔

سگریٹ اور تمباکو پر ٹیکس ایک اہم پالیسی اقدام ہے جو صحت عامہ کے فروغ کے لیے نا گزیر ہے، لیکن اس کا نفاذ اس انداز میں ہونا چاہیئے کہ غریب عوام پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔ محض قیمتیں بڑھا دینا کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی مہمات، صحت کی سہولیات اور سماجی تبدیلی کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔

اگر یہ سب عوامل ایک دوسرے کے ساتھ چلیں، تو نہ صرف تمباکو نوشی میں کمی آئے گی بلکہ ایک صحت مند، خوشحال اور با خبر معاشرہ تشکیل پائے گا۔

Shares: