سگریٹ پر ٹیکس ، بوجھ یا بچاؤ؟
تحریر: سعد فاروق
ہمارے ہاں ایک عجیب مزاج پروان چڑھ چکا ہے ، حکومت کوئی بھی اقدام کرے، اس کی نیت اور افادیت کو فوراً شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب بات سگریٹ جیسے "عوامی نشے” پر ٹیکس کی ہو، تو ایک مخصوص حلقہ چیخ اٹھتا ہے: "غریب کے منہ سے آخری خوشی بھی چھین لی گئی!” لیکن سوال یہ ہے: کیا واقعی سگریٹ پر ٹیکس غریب پر ظلم ہے؟ یا یہ ایک ایسا تلخ مگر ناگزیر فیصلہ ہے جو لاکھوں زندگیاں بچا سکتا ہے؟
تمباکو نوشی کو ایک "معمولی لت” سمجھنے والا طبقہ شاید اس کے اصل چہرے سے ناواقف ہے۔ یہ صرف ایک سگریٹ نہیں، بلکہ زہر میں بجھا ہوا تیر ہے جو ہر کش کے ساتھ جسم کے کسی نہ کسی عضو کو زخمی کرتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق، دنیا بھر میں ہر 6 سیکنڈ میں ایک انسان تمباکو سے جڑی بیماری کے سبب جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد اموات تمباکو نوشی سے وابستہ امراض جیسے پھیپھڑوں کے سرطان، دل کی بیماریوں، سانس کی تکالیف اور فالج کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
یہ صرف تمباکو نوش بننے والے فرد ہی کا نقصان نہیں، بلکہ اس کے خاندان، دوست احباب، اور بالخصوص غیرتمباکو نوش افراد بھی اس زہریلے دھوئیں کے نتیجے میں "ثانوی تمباکو نوشی” (Passive Smoking) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 40 ہزار سے زائد بچے اور خواتین اس ثانوی دھوئیں کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ سگریٹ کی صنعت حکومت کو ریونیو دیتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تمباکو نوشی سے جڑے طبی اخراجات اور معاشی نقصان کا سالانہ تخمینہ تقریباً 615 ارب روپے ہے، جب کہ حکومت کو اس صنعت سے صرف 200 ارب روپے کے لگ بھگ ٹیکس حاصل ہوتا ہے۔ یعنی ہم تین گنا نقصان اٹھا کر ایک گنا آمدنی لے رہے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے جو سب سے مؤثر طریقہ تسلیم کیا گیا ہے، وہ سگریٹ کی قیمت میں اضافہ ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق سگریٹ کی قیمت میں 10 فیصد اضافے سے تمباکو نوشی کی شرح میں کم از کم 4 فیصد کمی آتی ہے — اور غریب طبقے میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلپائن، ترکی، تھائی لینڈ، اور برطانیہ جیسے ممالک نے سگریٹ پر بھاری ٹیکس لگا کر کروڑوں زندگیاں بچائی ہیں۔
پاکستان میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں سے کم از کم 20 فیصد تمباکو نوش ہیں۔ ان میں بڑی تعداد نوجوانوں اور کم آمدنی والے مزدوروں کی ہے۔ یہ افراد نہ صرف اپنی صحت، بلکہ اپنے خاندان کی کفالت اور بچوں کی تعلیم و خوراک کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔ ایک دیہاڑی دار اگر روزانہ ایک ڈبیا سگریٹ پی رہا ہے تو وہ مہینے میں 3,000 روپے صرف دھواں خریدنے پر لگا رہا ہے — اتنی رقم میں بچوں کی فیس، راشن، یا دوائی آ سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس لگانا دراصل صحت پر سرمایہ کاری ہے۔ اس اقدام سے صرف صحت عامہ نہیں بچتی، بلکہ معاشی بوجھ بھی کم ہوتا ہے، اور غریب طبقے کو ایک صحت مند زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ صرف ٹیکس لگا دینا کافی نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ:
تمباکو نوشی کے خلاف وسیع تر آگاہی مہم شروع کرے، خاص طور پر تعلیمی اداروں، اسپتالوں، اور پبلک ٹرانسپورٹ پر۔
نشہ چھڑانے کے مراکز قائم کرے جہاں مفت یا سبسڈی کے ساتھ علاج ممکن ہو۔
بچوں اور خواتین کو ثانوی دھوئیں سے بچانے کے لیے سخت قوانین بنائے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنائے۔
صحت کے شعبے میں ٹیکس آمدنی کو شفاف انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ عوام کو یہ یقین ہو کہ ان کی قربانی کا فائدہ انہی کو واپس مل رہا ہے۔
اسلامی تعلیمات بھی ہمیں اپنی جان کی حفاظت کا درس دیتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "لا ضرر و لا ضرار” (نہ خود نقصان پہنچاؤ، نہ کسی اور کو)۔ جب ایک سگریٹ پینے والا فرد خود بھی متاثر ہو اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے، تو اس پر روک ٹوک نہ کرنا دراصل بے حسی ہے۔
ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنی عوام کی صحت کی حفاظت کرے، چاہے اس کے لیے سخت فیصلے کیوں نہ کرنے پڑیں۔ سگریٹ پر ٹیکس محض مالی اقدام نہیں، یہ ایک اخلاقی، طبی اور معاشرتی ضرورت ہے — ایک ایسا قدم جس کا فائدہ نسلوں تک پہنچے گا۔
اگر اس اقدام سے چند نوجوان سگریٹ پکڑنے سے رک جائیں، اگر چند مائیں اپنے شوہروں کو نشہ چھوڑتے دیکھیں، اگر چند بچے ثانوی دھوئیں سے محفوظ رہیں — تو یہ ٹیکس ان کے لیے ایک بوجھ نہیں بلکہ زندگی کا ایک نیا آغاز ہے۔
سگریٹ کی قیمت اگر بڑھ بھی جائے، تو یہ بہت کم قیمت ہے اُس سانس کے مقابلے میں جو بچ سکتی ہے۔