سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا
تحریر: روبینہ اصغر
آج کل سگریٹ اور تمباکو نوشی کو فیشن سمجھا جاتا ہے۔یہ لت موجودہ دورمیں ہر عمر کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔مرد تو مرد آج کل بچے،نوجوان بوڑھے،جوان بچیاں اور خواتین بھی محفوظ نہیں۔یہ ایک ایسا شکنجہ ہے کہ جو شخص ایک دفعہ اس میں پھنس جائے تو مشکل سے ہی خلاصی ملتی ہے۔جو شخص ایک دفعہ اس کا ذائقہ چکھ لے اسےبار بار اس کی طلب ہوتی ہے۔یوں یہ زہر آہستہ آہستہ اس کی رگوں میں سرایت کرنے لگتا ہے۔آخر کار نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ وہ اس کا اس حد تک رسیا ہوجاتا ہے۔کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ تمباکو نوشی کے بغیر وہ بِن موت مرجائے گا۔حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔سگریٹ اور تمباکو کسی بھی سگریٹ نوش کو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔
موجودہ معاشرے میں جہاں ہر دوسرا شخص اس لعنت میں مبتلا نظر آتا ہے۔محکمہ صحت کے مطابق اس کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اس سے نجات اور بچاؤ ممکن تو ہے مگر کیسے؟
اگر موجودہ موضوع کو لیا جائے کہ”سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا”تو میں اس سے مکمل اتفاق نہیں کرتی۔کیونکہ اس موضوع کے حوالے سے پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا سگریٹ نوشی میں صرف غریب طبقہ ہی مبتلا ہے؟ یا امراء بھی اس کے عادی ہیں؟ایک لمحے کے لیے اگر سوچ لیا جائے کہ سگریٹ کا مہنگاپن غریب کو تو سگریٹ سے دور رکھ دے گا تو امراء کا کیا ہوگا؟ان کے لیے بھی کوئی ایسا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔جس سے سگریٹ امیر طبقہ بھی ترک کرنے پر مجبور ہوجائے۔
سگریٹ اور تمباکواستعمال کرنے والے احباب اس کے نقصانات سے بخوبی واقف بھی ہیں۔پھر بھی وہ اسے دھڑا دھڑ استعمال کررہے ہیں اور جانتے بوجھتے یہ زہر اپنے اندر انڈیل رہے ہیں۔وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ تنہائی،غم،دکھ،ذہنی پریشانی اور تناؤ اس کےاستعمال کا سبب بنتے ہیں۔جب ان کا خاتمہ ہوگا تو یہ اسباب اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
اس زہر قاتل سے نجات صرف ایک فرد کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ ہرشخص کو اپنے معاشرے کے بچاؤ کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔اس کے لیے امیر، غریب اور متوسط ہر طبقہ کو آگے بڑھنا ہوگا۔تاکہ ہم ایک صحت مند معاشرے کو جنم دیں اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط،صحتمند اور خوشحال قوم بن کر ابھریں۔
اس کے لیے ہمیں درج ذیل اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
1-تمباکو کی کاشت اور اس کی درآمد پر پابندی لگانا حکومتِ وقت کا فرض ہے اور سنجیدگی سے اس پر غور کرنے کی ضرورت بھی ہے۔
2-سگریٹ تیار کرنے والے کارخانوں کو فی الفور بند کیا جائے۔تاکہ اس کی ترسیل کا خاتمہ ہوسکے۔
3-جب ایسی مضر صحت اشیاء کی پیداوار کم ہوگی تو تمباکو اور سگریٹ نوشی کی عادت بھی رفتہ رفتہ کم ہو جائے گی۔ایک دن ایسا آئے گا کہ ہمارا معاشرہ تمباکو سے پاک معاشرہ کہلائے گا۔
4-سگریٹ مہنگا کرنے کی بجائے اس کی تیاری اور تمباکو کی پیداوار کو روک کر کیوں نہ اس نشے کا جڑ سے ہی خاتمہ کردیا جائے۔نہ رہے گابانس نہ بجے گی بانسری
5-سگریٹ اور تمباکو کے استعمال میں امیر اور غریب دونوں طبقات ملوث ہیں لہذا ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے اس طرح دوررس اثرات مرتب ہوں کہ تمباکو اور سگریٹ دونوں طبقات کی پہنچ سے دور ہوجائیں۔کیونکہ دونوں طبقات ہمارے معاشرے کی ضرورت ہیں۔ان میں سے کسی کوبھی ہم تباہی میں نہیں دھکیل سکتے۔
6-یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پہلے سگریٹ کی ڈبیہ تیار کرتے ہیں پھر اس پر”خبردار!تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے”لکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ادا ہوگیا۔بھئی! ایسا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا یہ اندھوں کا دیس ہے۔بِن دیکھے اور سمجھے سب ایک ہی رو میں بہتے جارہے ہیں۔کوئی تو وقت کا مسیحا ہو جو اس معاشرے کو اندھے کنویں میں گرنے سے بچا لے۔
7-تمباکو اور سگریٹ نوشی معاشرے کا ایک ناسور ہیں۔صرف "ایک” دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ہمیں ہر روز اس غلط عادت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور کرتے رہنا چاہیے تاوقتیکہ اس کا کاروبار ٹھپ ہو جائے اور معاشرہ تمباکو سے پاک معاشرہ کہلائے۔اس سلسلے میں ہمارے مصنفین اور ادباء کو بھی اپنے قلم کا زور آزمانے کی ضرورت ہے۔برقی اور اشاعتی ذریعے سے عوام کو اس کے نقصانات سے آگاہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
8-یہ دونوں انسانی جسم کو اندرونی طور پر مکمل کھاجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں انسان پھیپھڑوں کے کینسر اور دیگر کئی عوارض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔نتیجتاً بیمار معاشرہ دیکھنے کو ملے گا۔سگریٹ نوش کے ساتھ ساتھ اس کے ارد گرد بیٹھے لوگ بھی اس کے زہریلے دھویں سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔سانس کے ذریعے ہوا میں شامل یہ دھواں ان کے اجسام میں سرایت کرکے اپنا اثر دکھاتا ہے۔جس سے کئی قسم کی سانس کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
9-یہ غلط لت معاشرے میں ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔اس زہریلے درخت کو چوٹی سے کاٹنے کی بجائے جڑ سے ہی اکھاڑ کر ختم کردینا چاہیے۔تاکہ ہمارے معصوم شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔
10-تمباکو نوشی چونکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔اس میں ہرملک و ملت کو بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ہر ملک اپنے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی درآمد و برآمد پر پابندی عائد کرے۔اس سلسلے میں چور بازاری کو ہوا نہ دے۔تو "ان شاءاللہ”وہ وقت دور نہیں جب ان زیریلی چیزوں کا خاتمہ ہوگا اور ایک مثالی صحت مند معاشرہ دیکھنے کو ملے گا۔جو ملکی خوشحالی میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔جس سے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔نہ۔صرف ملک بلکہ ہرشخص خوشحال ہوگا۔